برطانوی انجینئرنگ کا شاہکار اٹک کا آہنی پل
تقریباً ڈیڑھ صدی پہلے بننے والے پل پر اس وقت 32 لاکھ روپے سے زیادہ کی لاگت آئی تھی۔
اٹک صوبہ پنجاب کا آخری شمالی شہر ہے جس سے کچھ دور اٹک خورد یعنی چھوٹا اٹک گاؤں واقع ہے, جس کے قریب اٹک کا مشہور اور تاریخی پل واقع ہے۔اٹک کا آہنی پل اٹک خورد اور خیرآباد کنڈ کی درمیان دریائے سندھ پر آج سے تقریباً ایک سو اڑتیس برس قبل بنائے گیا تھا۔
اسی مقام پر دریائے کابل دریائے سندھ سے ملتا ہے۔ یہ پل 1395 فٹ طویل ہے۔ 5 مئی 1883 کو پہلی آزمائشی ٹرین اس پل سے گزاری گئی اور 24 مئی کو پل کا باقاعدہ افتتاح ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
ن لیگی خواتین کا قیمتی جوتے پہن کر اور بیگ لٹکا کر مہنگائی کے خلاف احتجاج
صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے درمیان واقع یہ پل برطانوی انجینئرنگ کا شاہکار اور نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
برطانوی جہازراں اور انجینئرنگ کمپنی ویسٹ وڈ بائیلی نے یہ پل تعمیر کیا۔ جس پر اس وقت 32 لاکھ روپے سے زائد لاگت آئی تھی۔
اٹک پل کی تعمیر سے قبل دریائے سندھ کو کشتیوں کا پل بنا کر پار کیا جاتا تھا۔
دریائے سندھ اور دریائے کابل کے سنگم پر بنایا گیا اٹک پل دو منزلہ ہے، بالائی منزل ٹرینوں کی آمد و رفت اور نچلی منزل گاڑیوں کے لئے بنائی گئی تھی۔
تعمیر کے 38 برس بعد 1921 کو ریلوے حکام نے محسوس کیا کہ پل کے کچھ حصے کمزور پڑ رہے ہیں جس پر پل سے گزرنے والی ٹرینوں کی رفتار کم کر کے پانچ کلو میٹر فی گھنٹہ کر دی گئی۔ جبکہ نچلے حصے میں بھاری ٹریفک کی آمد و رفت بھی محدود کر دی گئی۔
1925 سے 1929 کے درمیان پل کی تعمیر نو کی گئی۔ جس پر 25 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
30 اگست 1929 کو نیا پل ٹرینوں اور دیگر ٹریفک کے لئے باقاعدہ کھول دیا گیا۔
آج کل یہ پل صرف ٹرینوں کی آمدورفت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ نچلی منزل خستہ حال ہونے کے سبب گاڑیوں کی آمدورفت بند کر دی گئی۔ عام ٹریفک کے لیے نیا پل بنایا گیا ہے۔
اٹک پل سے متصل اٹک خورد ریلوے اسٹیشن پر اگرچہ مسافر ٹرینیں نہیں رکتی مگر سفاری ٹرین اور اپنی گاڑی سے یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد سے یہ فاصلہ تقریبا سو کلو میٹر بنتا ہے۔
یہ پل دنیا کہ ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں دو دریا ملتے ہیں۔ اس پل سے دریائے سندھ اور دریائے کابل کے سنگم کا نظارہ کیا جاسکتا ہے جو دو مختلف ممالک، زبانوں، قوموں، ثقافتوں، تہذیبوں اور تاریخ کے عکاسی ہیں۔
آج یہ پل آمدورفت سے زیادہ سیاحتی مقام کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ دور دور سے لوگ آج بھی اس تاریخی پل کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس پل کے قریب پارک کی تعمیر اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کر دی جائیں تو مزید سیاحوں کو یہاں راغب کیا جا سکتا ہے۔