تحریک عدم اعتماد اسد قیصر یا صادق سنجرانی کے خلاف، اپوزیشن تقسیم
پیپلز پارٹی کا موقف ہے چیئرمین سینیٹ جبکہ ن لیگ اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک اعماد لانا چاہتی ہے۔
پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں 30 سے زائد بلوں کی منظوری کے بعد اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت والی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے نئے آپشنز پر غور کر رہی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے آپس میں رابطے اور مشاورت کا عمل تیز کردیا۔ مسلم لیگ (ن) سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما شیری رحمان سے ملاقات کی اور مشترکہ میڈیا ٹاک بھی کی، جب کہ حزب اختلاف جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بھی دیگر جماعتوں سے رابطے کیے ہیں اور مشاورت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
قانون پر عمل داری کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، فواد چوہدری
ذخیرہ اندوزی کے خلاف حکومت کا وِسل بلوور متعارف کرانے فیصلہ
حزب اختلاف کی جماعتوں کی بحث کا محور دو نام رہے کہ ان کے خلاف اگر تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے تو پہلے کس کے خلاف پیش کی جائے، ایک اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور دوسرے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا موقف ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی جب کہ ن لیگ کی قیادت اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو نشانہ بنانے کے حق میں ہے۔
بدھ کے مشترکہ اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومتی بنچز کو شکست دینا ایک مشکل کام ہے۔ پیپلز پارٹی اور بعض اپوزیشن جماعتوں کو سینیٹ میں کامیابی کی امید کی کرن نظر آرہی ہے۔
تاہم تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے ابھی حتمی فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کو کرنا ہے۔
گزشتہ روز پی ٹی آئی کی قیادت والی حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات بل سمیت کل 33 بل منظور کرانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ بلز کی منظوری کے بعد سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل گیا اور اگلے عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینز (ای وی ایم) کا استعمال کیا جائے گا۔
پارلیمنٹ نے اپنا کام کیا ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے لیے ایک حقیقی امتحان ہے کہ وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے شفاف استعمال کے لیے 20 ماہ میں تیاریاں کرے۔ ای سی پی کو یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ سمندر پار پاکستانی اپنا ووٹ آن لائن کیسے ڈالیں گے۔
دوسری جانب انتخابی اصلاحات بل کو چیلنج کرنے کے لیے اپوزیشن کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواستوں کا فیصلہ کرنے کی بڑی ذمہ داری عدالتوں پر عائد ہوگی۔