پارلیمنٹ حملہ کیس: صدر عارف علوی عدالت میں پیش، استثنیٰ نہ لینے کا فیصلہ

آئینِ پاکستان کا پابند ہوں، قرآنِ پاک اس سے بڑا آئین ہے، میں صدارتی استثنیٰ نہیں لینا چاہتا

پارلیمنٹ حملہ کیس میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں  پیش ہوئے ، عارف علوی نے صدارتی استثنیٰ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے آئینِ پاکستان استثنیٰ دیتا ہے مگر میں یہ استثنیٰ نہیں لینا چاہتا ۔جتنے خلفاء آئے وہ عدالتوں میں بڑے با وقار انداز میں پیش ہوئے۔

جج محمد علی وڑائچ  کی زیر سماعت اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت  میں پارلیمنٹ حملہ کیس میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے وکیل اور مشیر برائے پارلیمانی امور ظہیر الدین بابر اعوان کے ہمراہ پیش  ہوئے ، دورانِ سماعت صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے صدارتی استثنیٰ نہ لینے کی درخواست عدالت میں جمع کرا دی۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد: پہلی مکمل میراتھن ریس میں صدر عارف علوی کی شرکت

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ایک بار پھر کورونا وائرس کا شکار

دورانِ سماعت صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عدالت کے جج محمد علی وڑائچ سے مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ لکھا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی، استثنیٰ کی گنجائش نہیں، آئینِ پاکستان کا پابند ہوں، قرآنِ پاک اس سے بڑا آئین ہے، مجھے آئینِ پاکستان استثنیٰ دیتا ہے مگر میں یہ استثنیٰ نہیں لینا چاہتا۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ جتنے خلفاء آئے وہ عدالتوں میں بڑے با وقار انداز میں پیش ہوئے، 2016ء میں مجھ پر چارج لگا تھا، اسی عدالت سے ضمانت بھی لی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے بعد  عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ہا کہ مجھ پر الزام تھا کہ میں نے ہتھیار سپلائی کیے ہیں۔پوری عدلیہ سے درخواست ہے کہ جلدی فیصلے ہوں، مقدمہ ہوتا ہے اور پھر ان کی نسلیں یہ کیس چلاتی ہیں، میرے والد نے 1977ء میں مقدمہ کیا تھا، وہ بھی آج تک چل رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں پاکستانی قوانین کا پابند ہوں، مگراس مقدمے میں استثنیٰ نہیں لینا چاہتا، میں صدرِ پاکستان نہیں، عام شہری کی حیثیت سے پیش ہوا۔، مقدمات بہت لمبے چلتے ہیں، گواہ مر جاتے ہیں، یاد داشت کمزور ہو جاتی ہے، کاغذ اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔

متعلقہ تحاریر