سب گھروں کو چلے گئے، قسمت کے دھنی عثمان بزدار آج بھی وزیراعلیٰ پنجاب

گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ وزیراعظم کے نام تھا جو آئینی پر درست نہیں اس لیے وہ منظور نہیں کیا جاسکتا جبکہ آئینی ماہرین نے اسے سیاست کی بساط پر شطرنج کی چال سے تشبیہہ دی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف جب سب سے بڑا قضیہ کھڑا ہوا تو انہوں نے سب سے پہلے عثمان بزدار سے استعفیٰ مانگ لیا اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی ایک وفادار ساتھی کی طرح سر جھکا کر استعفیٰ دے دیا، مگر اب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے ایک قانونی نقطہ اٹھاتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ ٹیکنیکلی بنیادوں پر غلط تھا اس لیے منظور نہیں ہوا۔

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا صوبے گزشتہ 18 دنوں سے بغیر کسی منتخب وزیراعلیٰ کے چل رہا ہے اور صوبے میں اس وقت ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ، پہلے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے حمزہ شہباز کی بطور وزارت اعلیٰ کا حلف لینے سے انکار کردیا اور پھر صدر مملکت جناب عارف علوی نے گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کی بھیجی ہوئی سمری کو ابھی تک قبول نہیں کیا اور انہوں نے انہیں کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں مزید 6 بینک شامل، تعداد 14 ہوگئی

وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے زیرتکمیل منصوبوں کو مکمل کرنے کی ہدایت کردی

اب عثمان بزدار کے استعفے کے معاملے پر گورنر پنجاب نے اعتراضات اٹھا دیئے ہیں ، جو گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن نے اٹھائے تھے اور اس وقت پی ٹی آئی نے ن لیگ کے موقف کو غلط قرار دیا تھا۔

گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ غیرآئینی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا ہے کہ عثمان بزدار کا وزیراعظم کے نام استعفیٰ آئین کی خلاف ورزی ہے ، عثمان بزدار کے وزیراعظم کے نام استعفے سے آئین کے آرٹیکل 130 سیکشن 8 کے آئینی تقاضے پورے نہیں ہوتے ہیں، عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ گورنر کی بجائے وزیراعظم کے نام ارسال کیا تھا جبکہ رولز کے مطابق وزیراعلیٰ کو اگر استعفیٰ دینا ہے تو گورنر کے نام دینا چاہیے تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق عثمان بزدار نے ٹائپ شدہ استعفے میں وزیراعظم کو مخاطب کرکے دستخط کیے تھے ، وزیراعظم وزیراعلیٰ کے استعفے کو منظور کرنے کے مجاز ہی نہیں تھے۔ کیونکہ یہ اختیار آئینی طور پر گورنر کے پاس ہوتے ہیں۔

دوسری جانب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی بریفنگ کے بعد آئینی ماہرین کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔

یہ پاکستانی سیاست کا کرشمہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی گھر چلے گئے ، سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور بھی گھر چلے گئے ، پی ٹی آئی کے 133 ارکان اسمبلی گھر چلے گئے ، گورنر سندھ عمران اسماعیل گھر چلے گئے ۔ گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان گھر چلے گئے ، وزیراعظم آزاد کشمیر گھر چلے گئے ، نہیں گیا تو ابھی تک عثمان بزدار گھر نہیں گئے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی آئینی رائے کے مطابق عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیرصدارت ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ایوان نے حمزہ شہباز کو بھاری اکثریت سے وزیراعلیٰ منتخب کرلیا ہے۔

قانونی ماہرین کی رائے

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دو اہم آئینی عہدے اس وقت تحریک انصاف کے پاس ہیں ایک صدر مملکت کا دوسرا گورنر پنجاب کا ، گورنر پنجاب کا عہدہ اپنے پاس رکھ کے حمزہ شہباز کے لیے مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی ، گورنر پنجاب کی تبدیلی کو زیادہ سے زیادہ 25 دن تک التواء کا شکار کرسکتے ہیں۔ یعنی جہاں تحریک انصاف ، حمزہ شہباز کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے تو وہیں عثمان بزدار کے استعفے سے متعلق بھی تحریک انصاف نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔

قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ اب جو موقف اختیار کررہے ہیں اس کو سیاست کہا جاسکتا ہے ، آئین میں یہ ضرور لکھا ہے کہ وزیراعلیٰ جب استعفیٰ دیں گے تو وہ استعفیٰ گورنر کے نام ہو گا ، لیکن وہ استعفیٰ جو عثمان بزدار نے وزیراعظم کو دیا تھا وہ گورنر پنجاب تک کسی نا کسی واسطے سے پہنچا۔ پھر نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی ہوگیا لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق۔ اب یہ کہنا کہ اس استعفے کی اصل حقیقت کھلنےکے بعد جو واقعات ہوئے ہیں وہ کالعدم ہیں۔ سیاست کے سوا کچھ نہیں۔

متعلقہ تحاریر