ادھورا الیکشن کمیشن،فیصلوں پر سوالیہ نشان اور حکومت کا امتحان

دو ممبران کی عدم موجودگی میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کتنے موثر ہوں گے جبکہ موجودہ حکومت کیلئے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں دو ممبران کی تقرری بھی امتحان ثابت ہوگی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے دو ممبران گزشتہ برس ریٹائرڈ ہوگئے تھے جن کی تقرری تاحال نہیں کی جاسکی جس سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔

سوال بھی پیدا ہوگیا ہے کہ صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی سے محروم الیکشن کمیشن کے فیصلے کتنے مستند ،شفاف ،غیر متنازع اور قابل قبول ہوں گے۔ چار میں سے دو ممبران کی تقرری سے محروم الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے، صوبوں میں بلدیاتی انتخابات، ضمنی انتخابات اور پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت سمیت اہم معاملات پر فیصلے کئے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

قومی و صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں 3 اگست تک مکمل ہونگی

وزیراعظم شہباز شریف سے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی ملاقات

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور خان نے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کے موقع پر الیکشن کمیشن کے نامکمل ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے 2 ارکان تعینات نہیں ہوسکے، آئین میں اختیارات الیکشن کمیشن کو ہیں، صرف کمشنر یا ممبرز کو نہیں۔

موجودہ حکومت کیلئے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں دو ممبران کی تقرری بھی امتحان ثابت ہوگی ۔

شفاف اور منصفانہ انتخابات کا ذمہ دار ادارہ۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک کا خود مختار ادارہ ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابات منعقد کروانے کا ذمہ دار ہے۔تمام  امیدوار کی جانچ پڑتال کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں اور ان کے سیاسی و مالی امور کی نگرانی بھی اس ادارہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

چیف الیکشن کمشنر اس ادارے کا سربراہ ہوتا ہے جبکہ ہر صوبے سے ایک ایک نمائندے کی تقرری کی جاتی ہے۔

دو ممبران کی عدم تقرری،ڈیڈ لائن گزرے مہینوں ہوگئے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ممبر خیبر پختونخوا سے ارشاد قیصر اور پنجاب سے الطاف ابراہیم قریشی گزشتہ برس 26 جولائی کو پانچ سالہ آئینی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہوگئے تھے۔

 آئین کے تحت حکومت کو 45 دن کے اندر نئے ممبران کی تعیناتی کرنا ہوتی ہے (تاہم قانون یہ بھی کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن 3 ارکان کے ساتھ  بھی فعال رہ سکتا ہے۔) مگر مقررہ آئینی مدت گزرنے کے کئی ماہ بعد بھی الیکشن کمیشن جیسے اہم قومی ادارے میں  دو ممبران کی تقرری نہ کی جاسکی جبکہ ملک میں عام انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف،جمعیت علما اسلام فضل الرحمان اور دیگر جماعتیں عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کررہی ہیں مگر الیکشن کمیشن کی تشکیل  تاحال مکمل نہیں ہوسکی ہے۔

الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق  2 ممبران کی گزشتہ برس ریٹائرمنٹ سے قبل  الیکشن کمیشن نےوفاقی حکومت کو آگاہ کردیا تھا اور اس حوالے سے وزارت پارلیمانی امور کو 2 خطوط تحریر کئے گئے تھے مگر اس کے باوجود معاملہ حل نہ ہوسکا۔

الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کو الیکشن کمیشن کے ممبران کی ریٹائرمنٹ سے متعلق متعدد بار بریفنگ بھی دی گئی۔

ممبر الیکشن کمیشن کی تقرری کا طریقہ کار

الیکشن کمیشن آئین کے تحت  3 ارکان کے ساتھ فعال رہ سکتا ہے تاہم حکومت کو اپوزیشن کی مشاورت سے 45 روز میں نئے ممبران کی تعیناتی کرنی ہوتی ہے۔

الیکشن کمیشن ممبران کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف تین تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجواتے ہیں، اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں اتفاق رائے نہ ہوسکے تو معاملہ 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جاتاہے۔

پہلے بھی ممبران کی تقرری ایک برس تک نہ ہوسکی۔

سابق حکومت کے دور میں اس سے قبل بھی الیکشن کمیشن کے صوبہ سندھ اور بلوچستان سے دو ممبران کی تعیناتی کا معاملہ ایک سال تک زیر التوا رہا تھا جبکہ آئین کہتا ہے کہ ان ممبران کی تقرری 45دن میں کی جانی ضروری ہے۔سندھ اور بلوچستان سے دو ممبران کی تقرری کے معاملے پر اس وقت کے وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر سے براہ راست مشاورت سے انکار کردیا تھا تاہم جب معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہنچا تو سابق وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر سے بذریعہ خط وکتابت مشورہ کیا تھا۔

موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے موقع پر بھی یہی عمل دہرایا گیا تھا۔

صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا سے دو ممبران کی تقرری کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں۔

ادھورے الیکشن کمیشن پر تحریک انصاف کا اعتراض

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کئی برس سے زیر سماعت ہے۔اب الیکشن کمیشن نے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت  ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میں روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 14 اپریل کو فارن فنڈنگ کیس میں پاکستان تحریکِ انصاف کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ 30 دن کے اندر اس مقدمے کا فیصلہ سنائے۔

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے الیکشن کمیشن میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جو آبزرویشن دیں وہ بدقسمتی ہے۔

آئین میں اختیارات الیکشن کمیشن کو ہیں صرف کمشنر یا ممبرز کو نہیں۔

انور منصور خان نے الیکشن کمیشن نامکمل ہونے کا اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اس وقت مکمل نہیں ہے اور دو ارکان تعینات نہیں ہوسکے، الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق کمیشن کے تمام ارکان کا ہونا لازمی ہے۔آئین میں اختیارات الیکشن کمیشن کو حاصل ہیں صرف کمشنر یا ممبرز کو نہیں۔

الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری موجودہ حکومت کے لیے امتحان

الیکشن کمیشن کے پنجاب اور خیبر پختونخوا سے دو ممبران کی تقرری حکومت کے لیے امتحان ثابت ہوگی کیوں کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرے۔تاہم اس وقت وقت تحریک انصاف کے ایوان سے مستعفیٰ ہونے کے سبب کوئی اپوزیشن یا اپوزیشن لیڈر نہیں ہے جبکہ تقرری کے لئے مقررہ آئینی مدت جو 45 دن ہے اس ڈیڈ لائن کو گزرے گئی ماہ ہوچکے ہیں۔اگر حکومت اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بغیر الیکشن کمیشن ممبران کا تقرر کرتی ہے تو یہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ اس سے الیکشن کمیشن کے مستقبل کے فیصلوں اور عام انتخابات  کے انعقاد پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

متعلقہ تحاریر