دعا زہرہ کیس، سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے اہم قانونی سقم سامنے آ گئے
معروف قانون دان جبران ناصر نے کہا ہے کہ دعا زیرہ کیس میں ایس ایچ سی نے اپنی ہی ڈویژنل بینچ کے فیصلے کو فالو نہ کرکے کئی سوالات کو جنم دےدیا ہے۔
گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرہ بازیابی کیس کی سماعت ہوئی ، ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور دلائل کی روشنی میں سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دعا زہرہ اور اس کے شوہر کو طیارے کے ذریعے لاہور منتقل کردیا گیا ہے۔
دعا زہرہ کیس سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر معروف قانون دان جبران ناصر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "دعا زہرا کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے اثرات ہوں گے؟ نادرا اور میڈیکل رپورٹس دونوں کے ذریعہ نابالغ ثابت ہونے والا کوئی بھی بچہ کیسے اپنے والدین کے گھر سے نکلنے اور کہیں بھی رہائش پذیر کا مجاز ہوسکتا ہے۔ کیا یہ فیصلہ فوجداری اور عائلی قوانین اور فقہ کے قوانین کو تباہ نہیں کرے گا۔؟
یہ بھی پڑھیے
سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا
معروف قانون دان جبران ناصر نے آگے بڑھتے ہوئے لکھا ہے کہ "ہائی کورٹ کا ڈویژنل بنچ اسی عدالت کے سابقہ ڈویژنل بنچ کے فیصلوں کو کس طرح مکمل طور پر نظر انداز کر سکتا ہے ، اگر کوئی بچہ یا بچی اپنی والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا تو سابقہ بینچ نے ہمیشہ نابالغ بچوں کو شیلٹر ہوم بھیجنے کا فیصلہ دیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کو بھی ساڑھے 17 کی دعا زہرہ کو 18 سال کی عمر تک شیلٹر ہوم میں رکھنے کا حکم دینا چاہیے تھے۔”
What is the effect of SHC judgment in #DuaZehra case? That anyone proven to be a minor both by NADRA and medical reports is free leave his/parents house and reside anywhere. How does this not destroy our jurisprudence on minors under Criminal & Family Law…
— M. Jibran Nasir 🇵🇸 (@MJibranNasir) June 9, 2022
جبران ناصر نے مزید لکھا ہے کہ "سندھ حکومت نے اس پولیس سرجن کو تبدیل کردیا جس نے دعا زہرہ سے متعلق قابل اعتراض رپورٹ بنائی تھی ، لیکن کیا یہ اس ایڈووکیٹ جنرل پر بھی سوال اٹھیں گے جس نے عدالت میں یہ مضحکہ خیز بیان دیا تھا کہ دعا زہرہ کو اغوا نہیں کیا گیا تھا اور عدالتوں کو نابالغ لڑکی کے بیان پر انحصار کرنا چاہیے۔”
آج دعا زہرہ کو خصوصی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنا تھا مگر اس سے فوری طور پر طیارے کے ذریعے لاہور منتقل کردیا ہے ۔ جبکہ دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی مجسٹریٹ کی عدالت کےباہر بیٹی کی پیشی کا انتظار کرتے رہے گئے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مہدی علی کاظمی کا کہنا تھا کل بچی سے جج کے چیمبر میں 3 سے 4 منٹ کی ملاقات ہوئی تھی ، اس کے بعد میری ملاقات نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ظہیر احمد کی گرفتاری نہیں ڈالی گئی ہے ، جبکہ ایف آئی آر کے مطابق اسے گرفتار ہونا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا پولیس نے نمرہ کاظمی والے کیس میں لڑکے کو گرفتار کرلیا تھا ، اور وہ ابھی تک گرفتار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آج میری بیٹی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیشی ہے ، اب ٹرائل کورٹ میں مزید کارروائی ہو گی ، اس کیس میں پولیس نے پہلے دو اشخاص کو گرفتار کیا تھا ، ایک نکاح خوان تھا اور ایک گواہ تھا ، اب پولیس 12 بندوں کو مزید لے آئی ہے ، کچھ لوگ کل بھی لائے گئے تھے مگر کل جج صاحب اٹھ گئے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں دعا زہرہ کاظمی کے والد مہدی علی کاظمی کا کہنا تھا مجھے اس کیس کو سپریم کورٹ بھی لے کر جانا پڑے تو لے کر جاؤں گا۔
دعا زہرہ اور ظہیر احمد کو جہاز کے ذریعے لاہور روانہ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے دعا زہرہ کے والد کے وکیل الطاف کھوسو کا کہنا ہے کہ اب پکا کہے سکتے اس کے پیچھے بڑے ہاتھ ہیں۔
ایڈووکیٹ الطاف کھوسو کا کہنا ہے دعا زہرہ نے جس سے شادی کی وہ اتنے امیر نہیں کہ جہاز میں لے جائیں ، لیکن اس بات سے پکا کہے سکتے ہیں جہاز میں اتنی جلدی کس طرح ٹکٹ کرا لی گئی اور اس سے اندازہ لگتا ہے جو والد کا بیانیہ تھا وہ سچ ثابت ہوگیا ہے کہ اس سب کے پیچھے کوئی گینگ ملوث ہے۔









