فوج میڈیا پر سیاسی معاملات پر بیانات سے اجتناب کرے، اسد عمر

تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر کا کہنا ہے ڈی جی آئی ایس پی آر بار بار سیاسی معاملات کی تشریح نہ کریں تو ملک کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ایک مرتبہ پھر مراسلے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، کیونکہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔ سیاسی معاملات کو سیاستدانوں کے درمیان رہنا دیا جائے ، اگر ڈی جی آئی ایس پی آر بار بار سیاسی معاملات کی تشریح نہ کریں تو ملک کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔

اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنما شیری مزاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے کے لیے کیا ہوا تھا اور کیا نہیں ہوا تھا ، ہم نے سوچا اس حوالے سے ہمیں اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے رکھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

وزراء اسمبلی نہیں آتے ، گھر جائیں اور الیکشن کروائیں، خورشید شاہ

پی ٹی آئی کی مقبولیت نے ن لیگ اور پی پی کو ملکر الیکشن لڑنے پر مجبور کردیا

اسد عمر کا کہنا تھا ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ روز جو انٹرویو میں باتیں کی ہیں اس کے حوالے سے ہمارا کیا موقف ہے وہ بھی ہم قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے پلیٹ فارم سے یہ بات کرنے کی ضرورت کیا تھا کہ ہماری حکومت کے خلاف سازش ہوئی تھی یا نہیں ، ڈی جی آئی ایس پی آر خود ہی سیاسی پارٹیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھیں ، یہ بالکل ٹھیک ہے مگر یہ امپورٹڈ حکومت مداخلت سے آئی ہے، سازش سے آئی ہے ، یہ ساری باتیں سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے سے کرنے دیں، اب چونکہ انہوں نے بات کی ہے تو وضاحت تو ہمیں دینی پڑے گی۔

رہنما تحریک انصاف اسد عمر کا کہنا تھا مراسلے سے متعلق قومی سلامتی کمیٹی کی جو پہلی میٹنگ ہوئی ، اس کو عمران خان چیئر کررہے تھے ، وفاقی وزراء اور فوجی قیادت بھی تشریف فرما تھی ، مراسلے کو جب میٹنگ میں پڑھ کر سنایا گیا تو فوجی لیڈرشپ سے ایک صاحب نے کہا کہ حقائق کو اور رائے کو بالکل الگ الگ کرکے دیکھنا چاہیے ۔ پھر انہوں نے مراسلے کے کچھ سینٹنس پڑھے اور کہا کہ یہ تو کچھ حقائق ہیں اور باقی رائے ہے۔

اسد عمر نے بتایا کہ حقائق یہ تھے کہ پاکستان کو ایک سیدھی سیدھی دھمکی دی جارہی تھی۔ یعنی عدم اعتماد کی تحریک اگر ناکام ہو گئی تو پاکستان تنہائی کا شکار ہو جائے گا، اور پاکستان کے لیے آنے والے وقت میں مشکلات ہوں گی ، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا، یعنی سیدھی سیدھی دھمکی ، یہ وہ حقائق تھے جو اس مراسلے میں موجود تھے۔ جبکہ اس وقت تک تحریک عدم اعتماد پیش بھی نہیں ہوئی تھی۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دونوں میٹنگز کی پریس ریلیز جاری کی گئی تھی ، پریس ریلیز میں باقاعدہ لکھا گیا تھا کہ بیرونی مداخلت ہوئی ہے ، جو کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے ۔ یہ وہ سچ ہے جو پر کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مراسلے سے قبل کے اگر ہم حقائق کو دیکھیں گے تو تمام تانے بانے جڑتے چلے جائیں گے ، امریکی سفارتخانے اور امریکی سفیر کی ملاقاتیں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے ساتھ ۔ جنہوں نے بعد میں وفاداری تبدیل کرلی ۔ ہم نے دیکھا کس طریقے سے پیسہ آرہا ہے وہ پیسہ لوگوں کے ضمیر خریدنے کے لیے کیسے بہایا جارہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کہتے ہیں کہ فوجی قیادت نے یہ ایڈمٹ کیا تھا کہ انہیں مراسلے میں سازش کے شواہد نظر نہیں آرہے یہ بالکل ٹھیک بات ہے جو انہوں نے کی۔ کیونکہ قومی سلامتی کی میٹنگ میں اکثریت کی رائے تھی کہ سازش نہیں ہوئی ، جبکہ سویلین قیادت کی رائے تھی کہ سازش نظر آرہی ہے ۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک قانون پسند انسان ہیں ، آئین کو ماننے والے انسان ہیں ،  اس لیے انہوں نے کوئی آرڈر جاری نہیں کیا ، کہ چونکہ میں کہہ رہا ہوں اس لیے سب مان جاؤ کے سازش ہوئی ہے۔ اور لوگوں کو سزائیں دینی شروع کردو ۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ ایک جوڈیشنل کمیشن بنایا جائے جو معاملے کی تحقیق کرے گا ، مگر پھر ہماری حکومت ہی چلی گئی۔

ان کا کہنا تھا ہماری یہ اپیل ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنے اور مراسلے کی انکوائری کرائے ، جس کی اوپن ہیئرنگ ہو ، سارا پاکستان دیکھے کہ ہوا کیا ہے ۔ اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے ، اگر سازش ثابت ہو جاتی ہے تو اس سازش میں کون کون ملوث تھا سب کو سزائیں ہونی چاہئیں۔

اسد عمر کا کہنا تھا عمران خان ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر آئے تھے ، قومی سلامتی کا دفاع کرنا ان کی ذمہ داری تھی ، صرف فوج کا کام نہیں ہے قومی سلامتی کا دفاع کرنا۔

سپریم کمانڈر آف دی آرمڈ فورسز صدر پاکستان عارف علوی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ مراسلے میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کے جوابات ڈھونڈنے چاہئیں ۔ عمران خان بھی صرف یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مراسلے میں جو سازش کا عنصر نمایا ہے اس کو تسلیم کیا جائے اور جوڈیشنل انکوائری کرائی جائے۔ ہم عدالتوں کی عزت کرتے ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں جو فیصلے ہوں عدالتوں کے ذریعے ہوں۔

پریس کانفرنس کا حصہ بنتے ہوئے شیری مزاری کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو بیان دیا ہے وہ انہوں نے اپنی رائے دی ہے کہ مداخلت ہوئی تھی سازش نہیں ہوئی تھی ، مگر یہ کہنا کہ جو ان سے متفق نہیں ہے وہ جھوٹ بول رہا ہے یہ ایک بےعزتی ہے ، عمران خان کو جو پورے ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں اس آپ رائے دے رہے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں ، یہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

شیری مزاری کا کہنا تھا مراسلے میں واضح لکھا گیا تھا کہ روس جانے کا عمران خان کا فیصلہ ذاتی فیصلہ تھا ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ سویلین قیادت سے مشاورت کے بعد روس کا دورہ طے کیا گیا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے گزشتہ روز کے انٹرویو پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی کی رہنما ملیکا علی بخاری نے سماجی رابطوں  کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ "ایک خودمختار ریاست کے وزیر اعظم کو امریکا کے خارجہ کے انڈر سیکرٹری کی واضح دھمکی کے بعد ہٹا دیا گیا۔ پاکستان کی عوام اپنے منتخب اور مقبول ترین وزیراعظم کو ہٹانے کی سازش کے حوالے سے جواب چاہتی ہے۔ اس کا واحد حل سپریم کورٹ کے تحت عدالتی کمیشن کے ذریعے شفاف تحقیقات ہے۔”

جبکہ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے لکھا ہے کہ "قوم چیف جسٹس آف پاکستان سے سوال کررہی ہے کہ وہ سائفر ایشو کی تحقیقات کے لیے کمیشن کیوں نہیں بنا رہے؟ قوم کو حقائق جاننا چاہتی ہے کہ یہ تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

متعلقہ تحاریر