مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز کی سپریم کورٹ اور ماضی کے فیصلوں پر کڑی تنقید
نائب صدر مسلم لیگ ن کا کہنا ہے اس ملک میں پارٹی ہیڈ کو دیکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ فیصلے ٹھیک ہوں تو تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی ہے ، ترازو ٹھیک ہوگا تو پاکستان خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، ہمارے خلاف مقدمے میں مانیٹرنگ جج ہر کیس میں لگا ہوا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا جس طرح سے میچ فکسنگ ہوتی ہے اس طرح بینچ فکسنگ ہو رہی ہے، بینچ فکسنگ پر سوموٹو ہونا چاہیے ، عوام پر ٹوٹنے والا قہر چند ججز کے فیصلوں کی وجہ سے ہے۔
یہ بھی پڑھیے
فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کو فضا اور زمین تنگ کرنے کی دھمکی دے دی
وزیراعظم نے عمران خان کو میکاؤلی اور وزیر اطلاعات نے ہٹلر کہہ ڈالا
اسلام آباد میں پی ڈی ایم رہنماؤں کی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا 2014 میں جلاؤ گھیراؤ ، سول نافرمانی اور پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا ، کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں ٹانگو کفن پہن کر جاؤ ، مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ جسٹس کھوسہ نےعمران خان سے کہا سڑکوں پر کیوں پھرتے ہوئے پٹیشن لاؤ ،عمران خان نے پورے اسلام آباد میں آگ لگا دی ، اشتہاری عمران نیازی کورٹ نمبر ون میں ججز کا مذاق اڑاتا رہا ، یہ بات کہاں سے آئی کہ مسلم لیگ (ن) کو مائنس کردیں۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر کا کہنا تھا کہ پارٹی ہیڈ کو دیکھ کر اپنے فیصلے بدلے جاتے ہیں ، مریم نواز کو ڈیتھ سیل میں رکھا جاتا ہے علیمہ خان کو جرمانہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
نائب صدر مسلم لیگ ن کا کہنا تھا شہزاد اکبر اور فرح گوگی کو راتوں رات ملک سے فرار کروا دیا جاتا ہے ، ایف آئی اے نے پی ٹی آئی کے خلاف کیس کھولا سپری کورٹ نے بند کروا دیا ، شیریں مزاری کے لیے رات کو عدالت کھول دی جاتی ہے ، بنی گالا کا گھر جعلی دستاویزات پر ریگولائز کیا گیا۔
عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کسی عدالت کو عمران خان کے خلاف سوموٹو لینے کی اجازت نہیں؟ صادق و امین نے 5 کیرٹ انگوٹھیوں کے عوض فائلوں پر دستخط کیے ، اگر موازنہ ہوگا تو نواز شریف حکومت اور عمران خان کی حکومت کا ہوگا، 2017 کے بعد ایسا ملک ہلا کے اب سنبھلنے میں نہیں آرہا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں یہاں پریس کانفرنس کرنے کے لیے آرہی تھی تو کہاگیا کہ آپ آج پریس کانفرنس نہ کریں کیونکہ آپ کا پانامہ کیس ہائی کورٹ میں چل رہا ہے اور اس کا فیصلہ آنے والا ہے اس لیے آپ کی پریس کانفرنس کہیں اس کیس پر اثر انداز نہ ہو جائے، کہیں آپ کو ڈسکوالیفائی نہ کردیا جائے۔ میرا جواب تھا کہ جو عوام کے نمائندے ہوتے ہیں انہیں اپنے سے بڑھ کر سوچنا پڑتا ہے۔