سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے بیٹے اسد علی شاہ کی سندھ حکومت پر مسلسل تنقید
گزشتہ سالوں میں نظام حکومت تیزی سے گرا ہے، بارش کے 3 ہفتوں بعد بھی انتظامیہ لاعلم ہے کہ معمولات زندگی کی بحالی کیلیے پانی کیسے نکالا جائے، کبھی کسی کا احتساب نہیں ہوا، اسد علی شاہ کا ٹوئٹر پر اظہار خیال
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے صاحبزادے اسد علی شاہ سیلاب سے نمٹنے میں سندھ حکومت کی ناکامی ، نااہلی اور ناقص کاکردگی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔
اسد علی شاہ نے اپنے متعدد ٹوئٹس میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں سندھ حکومت کی کارکردگی کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔کہتےہیں بارش کے 3 ہفتوں بعد بھی انتظامیہ اہم ترین کام سے لاعلم ہے کہ معمولات زندگی کی بحالی کیلیے پانی کیسے نکالا جائے۔ انہوں نے لکھا کہ کبھی کسی کا احتساب نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے
سیلاب زدگان میں امدادکی تقسیم وترسیل میں شفافیت کیلئے ڈیجیٹل فلڈ ڈیش بورڈ قائم
سیلاب زدہ علاقوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کاخدشہ ہے، عالمی ادارہ صحت
امداد کی غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے ایک ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے اسد علی شاہ نے لکھاکہ راشن کی تقسیم عوامی نمائندوں کے ذریعے نہیں کی گئی۔ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کے تحت خیموں، کھانے وغیرہ کی تمام تقسیم سول جج کی زیر صدارت شہریوں کی کمیٹیوں کے ذریعے کی جا رہی ہے لہٰذامعاملے کی تحقیقات کے لیے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا جائے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ انتظامیہ کی جانب سے ان متاثرین کی شناخت میں ناکامی سب سے بڑا مسئلہ ہے، جو بے گھر ہو چکے ہیں اور انہیں جو کچھ بھی دستیاب ہے وہ فراہم کرنا ہے۔
2) Our society is full of corruption/scams- ppl will scandalise distribution. As they say "Do what you feel in yr heart to be right- for you’ll be criticised anyway. You’ll be damned if you do, & damned if you don’t.”Main issue in this disaster: indecisiveness/slow response 2/2
— Asad Ali Shah (@Asad_Ashah) September 12, 2022
انہوں نے کہاکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ بڑے کارگو ڈی سی ہاؤس میں کئی دن پڑے رہتے ہیں بجائے اس کے کہ انہیں شدید ضرورت میں لوگوں کو تقسیم کیا جائے ۔اسد علی شاہ نے کہا کہ ہمارا معاشرہ بدعنوانی اور گھپلوں سے بھرا ہوا ہے، اس تباہی کے دوران اہم مسئلہ فیصلہ سازی کی کمی اور سست رسپانس کا ہے۔
صحافی نازش بروہی کی سیلاب سے نمٹنے کی حکومتی حکمت عملی سے متعلق ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے اسد علی شاہ نے لکھا کہ نازش! 2010 اور 2022 کے سیلاب میں بہت بڑا فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی دنیا ڈیجیٹل اورورچوئل بن گئی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان اور خاص طور پر سندھ میں اس کی بہت کمی ہے کیونکہ انگریزوں سے ورثے میں ملنے والی فائلوں کا دستی نظام اب بھی جاری ہے، بڑی آفات تبدیلی میں مدد کرتی ہیں، جیسا کہ کرونانے کیا لیکن یہاں نہیں ہوسکا۔
2. 2nd: 2010 was riverine flood caused by breach in indus, inundated few districts on right bank. Currnt disaster caused by unusually heavy rainfall throughput Sindh, in combination wth excessive water from Balochistan on right bank, also due to excessive rains 2/
— Asad Ali Shah (@Asad_Ashah) September 13, 2022
انہوں نے مزیدلکھا کہ 2010کا سیلاب دریائی تھا جو دریائے سندھ کے دائیں جانب شگاف پڑنے سے آیا اور چند اضلاع ڈوب گئے۔ موجودہ آفت غیر معمولی طور ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے آئی ہے اور ساتھ میں دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر بلوچستان سے ضرورت سے زائد پانی آگیا جوکہ وہاں ہونے والی غیر معمولی بارشوں کی وجہ آیا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ انتظامیہ میں ضرورت سے زائد بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے نمٹنے کی تیاری اور سمجھ کا بھی فقدان ہے کیونکہ ہر جگہ پانی ہے۔انہوں نے لکھا کہ انتظامیہ کے پاس 5سال میں ایک مرتبہ دریا کے ذریعے آنے والے سیلاب کے مقابلے میں ضرورت سے زیادہ بارش کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے نمٹنے کی بہت کم سمجھ ہے۔
4) 4rth, quality of ppl, poor decision making, lack of accountability: referred as governace- declined sharply over the years. Even after 3 weeks of rains: administration clueless on most important step- how to evacuate water to bring normalcy. No one ever held accountable. 4/4
— Asad Ali Shah (@Asad_Ashah) September 13, 2022
انہوں نے مزید لکھا کہ عوام کا معیار، ناقص فیصلہ سازی، احتساب کا فقدان جسے نظام حکومت کہا جاتا ہے، گزشتہ سالوں میں تیزی سے گرا ہے، بارش کے 3 ہفتوں بعد بھی انتظامیہ اہم ترین ا قدام سے لاعلم ہے کہ معمولات زندگی کی بحالی کیلیے پانی کیسے نکالا جائے۔ انہوں نے لکھا کہ کبھی کسی کا احتساب نہیں ہوا۔