طالبہ نے بچپن میں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنانے والے شخص کو بے نقاب کردیا

طالبہ سیدہ خدیجہ نے ٹوئٹر تھریڈ میں جنسی ہراسانی کانشانہ بنانے والے مبینہ شخص کی تصویر شیئر کرتے آپ بیتی بیان کی اور چھوٹے بچوں کے والدین کو قیمتی نصیحت کردی۔

ٹوئٹر استعمال کرنے والی پاکستانی طالبہ سیدہ خدیجہ نے 9 سال کی عمر میں خود کو جنسی ہراسانی  کا نشانہ بنانے والے شخص کو بےنقاب کردیا۔

خاتون صارف نے جنسی ہراسانی کانشانہ بنانے والے مبینہ شخص کی تصویر شیئر کرتے آپ بیتی بیان کی ہے اور چھوٹے بچوں کے والدین کو قیمتی نصیحت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور میں کار سواروں کی لڑکی کو اغوا کرکے اجتماعی زیادتی، وڈیو بھی بنائی

کراچی میں نجی اسکول کے استاد کی 14 سالہ طالبہ سے مبینہ زیادتی، ملزم گرفتار

سیدہ خدیجہ نے تصویر کے کیپشن میں لکھا کہ” میں جنسی ہراسانی کا نشانہ بن چکی ہوں  اور اس وقت میری عمر صرف 9 سال تھی۔ مجھے تقریباً 6 ماہ تک جنسی ہراسانی کانشانہ بنایا گیا ۔ اپنے والدین کی جانب دوبارہ کبھی اس بات کا ذکر  نہ کرنے کی ہدایت کے بارے میں سوچے بغیر  میں یہ بات کررہی ہوں“۔

خاتون صارف نے ٹوئٹ  کے ساتھ منسلک تصویر میں موجود شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ”یہ وہی  ہیں، انکی  پوتی میری عمر کی تھی“۔

خاتون صارف نے لکھاکہ  ”ہو سکتا ہے اس واقعے کو کافی عرصہ ہو گیا ہو لیکن ایسی چیزیں آپ پر مستقل نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ میں اب کافی مضبوط ہوں لیکن اس رات کو یاد کرتے ہوئے کہ مجھے کس طرح ہراسانی کا نشانہ بنایا گیاتھا ، میں خوف سے کانپنے لگتی ہوں ، یہ وہ خوف ہے جو میں نے اس کمرے میں ان کے ساتھ اپنی والدہ کانام پکارتے ہوئے  محسوس کیا تھا“۔

سیدہ خدیجہ نےاپنے ساتھ پیش آئے افسوسناک واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھاکہ”یہ واقعہ 2013 میں پیش آیا جب میں صرف 9 سال کا تھا۔ اس کا نام قدیر (مجھے ہراسانی کا نشانہ بنانے والا) تھا۔ میں نےانہیں اپنا نانا سمجھاکیونکہ وہ انہی  کے ہم عمر تھے، وہ ذیابیطس کے مریض تھے اور باقاعدگی سے ڈائیلاسز کے لیے جاتے تھے۔ یہ سب 9 سال کی بچی کو یاد ہے“۔

خاتون صارف نے مزیدلکھا کہ”میرے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی، لیکن درحقیقت میری شرم گاہ  کو نامناسب طریقے سے چھوا  گیااور یہ تقریباً 6 ماہ تک جاری رہا۔ تب کسی نے مجھے صحیح یا غلط طور پر چھوئے جانے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ ہاں میں نے بے چینی محسوس کی اوران کا چھونا مجھے صحیح اور محفوظ محسوس نہیں ہوا“۔

انہوں نےمزیدلکھاکہ”لیکن میرے لیے اپنی والدہ سے  اس بارے میں بات کرنا بہت شرمناک تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھ پر یقین نہیں کریں گی، لیکن میں غلط تھی۔انہوں نے مجھ پر یقین کیا اور کاش مجھے یہ جلد معلوم ہوتا۔ میرے والدین نے سوچا کہ اگر ہم میں سے کوئی اس بارے میں بات نہیں کرے گا تو میں سب کچھ بھول کر آگے بڑھ جاؤں گی لیکن کیا یہ اتنا آسان ہے؟ قدیر نے مجھے زندگی بھر کا داغ دیا“۔

طالبہ نے لکھا کہ ”اس سارے عرصے میں میں نے سوچا کہ یہ واقعہ میرے لیے شرمناک ہے لیکن آج میں نے بالآخر محسوس کر لیا ہے اور قبول کر لیا ہے کہ جنسی زیادتی ہمارے لیے نہیں بلکہ زیادتی کرنے والے کیلیے شرمناک ہے، میں نے یہ سب کچھ 10 سال تک اپنے اندر رکھا سوچا کہ معاشرہ کیا کہے گا؟لیکن معاشرے نے مجھے یا کسی اور عورت کے ساتھ کیا بھلا کیا؟ یہ وہ ملک ہے جہاں عورت اپنی قبر میں بھی محفوظ نہیں!!! مجھے اس کا نام لینا چاہیے اور اسے بے نقاب کرنا چاہیے ۔ چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ۔ اس کے گھر والوں اور دوستوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اندر سے کیسا  بھیانک تھا“۔

سیدہ خدیجہ نے مزید کہا کہ” براہ کرم میں آپ میں سے ہر ایک سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنے بچوں کو اچھے اور برے طور پر چھوئے جانے کا فرق بتائیں۔ انہیں بتائیں کہ صرف ان کی ماں ہی ان کی شرمگاہ کو چھو سکتی ہیں! کوئی اور اجنبی ایسا نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی خاندان کا کوئی فرد، چاہے وہ  آپ کے کزن ، ماموں، چاچو، دادا اور  نانا ہی کیوں نہ ہوں،کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے!!! “

طالبہ نے والدین سے اپیل کی کہ” براہ کرم اپنے بچوں کی بات سنیں ،جب وہ آپ کو اس طرح کی کوئی بات بتانے کی ہمت جمع کریں۔ براہ کرم ان پر یقین کریں اور انہیں مایوس نہ کریں“۔

متعلقہ تحاریر