نشتر اسپتال میں 500 لاوارث لاشو ں کامعاملہ 200روپے فیس کے تنازع کا شاخسانہ نکلا
لاہور ہائیکورٹ نے 2 سال قبل 3 محکموں کو مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کی ہدایت کی تھی،نادرا، پنجاب کے محکمہ داخلہ اور محکمہ صحت نامعلوم، لاوارث لاشوں اور مریضوں کی شناخت کیلیے فنڈز مختص کرنے کابوجھ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں، ذرائع

نشتر اسپتال ملتان میں 500 لاوارث لاشیں ملنے کا معاملہ سرکاری محکموں کے درمیان 200 روپے کی معمولی رقم کی ادائیگی کے تنازع کا شاخسانہ نکلا۔
افسران کے لیے پرتعیش گاڑیوں کی خریداری پرکروڑوں روپے خرچ کرنے والے3 ریاستی اداروں کی لاوارث لاشوں کی شناخت کیلیے 200 روپے کی معمولی فیس کی ادائیگی میں ہچکچاہٹ لاوارث لاشوں کی تجہیز و تکفین میں رکاوٹ بن گئی ۔
یہ بھی پڑھیے
نشتر اسپتال ملتان میں لاشوں کی بے حرمتی کا انکشاف، 500 لاشوں کے باقیات برآمد
عالمی ادارہ صحت سیلاب متاثرین کیلیے بھارت سے 62 لاکھ مچھر دانیاں خریدے گا
انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، پنجاب کے محکمہ داخلہ، محکمہ صحت نامعلوم اور لاوارث لاشوں اور مریضوں کی شناخت کیلیے فنڈز مختص کرنے کابوجھ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے دو سال قبل تینوں محکموں کو 26پنجاب کے سرکاری ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتالوں، 115 تحصیل ہیڈ کوارٹرز اور 44 ٹیچنگ اسپتالوں میں نامعلوم لاشوں/ نامعلوم مریضوں/منشیات کے عادی افراد کے بائیو میٹرک فنگر پرنٹس کے لیے مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے کی ہدایت کی تھی۔
انتہائی ضروری اسکیم کے تحت پنجاب کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں لائی جانے والی لاوارث یا نامعلوم لاشوں اور مریضوں کی بائیو میٹرک تصدیق کیلیے صرف 200 روپے کی ادائیگی کی ضرورت تھی ۔بدقسمتی سے اسکیم پچھلے دو سالوں سے زیر التوا ہے کیونکہ کوئی محکمہ لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کی تعمیل کیلیے تیار نہیں ہے۔
دوسری جانب پنجاب کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ترقی نے 10 ستمبر کو وزیراعلیٰ کی منظوری کے بعد پیش کی گئی سمری کی منظوری دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پنجاب حکومت وزیراعلیٰ ہاؤس اور کابینہ کے ارکان کے لیے 30 کروڑ روپے کی لاگت سے 40 نئی گاڑیاں خریدے گی۔
اس پیشرفت سے آگاہ ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ اکیلے میو اسپتال لاہور کو ہر ماہ تقریباً 40 سے 50 لاوارث لاشیں موصول ہو رہی ہیں، یہ تعداد اضافی بوجھ کے حامل محکمہ ایکسیڈنٹ اینڈ ایمرجنسی میں آنے والے نامعلوم مریضوں کے علاوہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ جناح اسپتال لاہور، لاہور جنرل اسپتال اور ان ہاؤسنگ مردہ خانوں سے بھی روزانہ لاوارث لاشیں اور نامعلوم مریض موصول ہورہے ہیں ۔دہائیوں پرانے نظام میں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر کسی کا دھیان نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ نامعلوم لاشوں کو یا تو مقامی قبرستانوں میں دفن کیا جاتا تھا یا تجربات کے لیے طبی اداروں کو فروخت کیا جاتا تھا۔
اہلکار نے کہاکہ مقامی پولیس نامعلوم لاشوں کو شناخت کے عمل کے بغیردفن کرنے کے لیے مختصر قانونی کارروائیاں انجام دیتی تھی۔
یہ غیر اخلاقی عمل ان خاندانوں کے لیے بہت سی تکلیف دہ کہانیاں سامنے لارہا ہے، جب وہ شہر کی ’نامعلوم قبروں‘ میں اپنے پیاروں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے، جن میں سے زیادہ تر شہر خموشاں میں ہیں۔
اہلکار نے بتایا کہ میو اسپتال کے ڈاکٹر سلمان کاظمی نے 2020 میں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے سینئر وکیل اظہر صدیق کے ذریعے درخواست دائر کی تھی، جس میں پنجاب حکومت کو ہر لاوارث لاش اور نامعلوم مریض کی بائیو میٹرک تصدیق کو لازمی قرار دینے کی ہدایت کرنے کی استدعا کی گئی تھی ۔
بعد ازاں لاہورہائیکورٹ نے ریاستی اداروں بشمول نادرا اور پنجاب کے محکمہ داخلہ اور صحت کو اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایم او یو پر دستخط کرنے کی ہدایت جاری کی۔
اس کے بعد سے، متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے کئی سرکاری اجلاس کیے لیکن لاہور ہائیکورٹ کی ہدایات پر کوئی تعمیل یقینی نہیں بنائی گئی کیونکہ معاملہ ان سرکاری محکموں کے درمیان صرف سرکاری خط و کتابت تک محدود تھا۔
اس سال 18 جولائی کو سیکریٹری صحت پنجاب کی جانب سے نادرا کے آپریشن رجسٹریشن ونگ کے ڈائریکٹر قاسم رضوی کو لکھے گئے آخری خط کے ذریعے سابق وزیر نے بتایا کہ لاوارث لاشوں اور مریضوں کی بائیو میٹرک شناخت کے لیے پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں انسانی اور دیگر وسائل دستیاب ہیں۔
اس کے جواب میں نادرا اسلام آباد نے 10 اگست کو محکمہ صحت پنجاب کو بتایا تھا کہ ادارہ بائیو میٹرک تصدیق سروس کے لیے فی کیس 200 روپے وصول کرے گا۔