شاہ زیب قتل کیس: سپریم کورٹ سے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی بریت کا حکم صادر

شاہ زیب خان کی ہلاکت کا واقعہ 24 دسمبر 2012 کی شب کراچی میں ڈیفینس کے علاقے میں پیش آیا تھا جہاں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے انھیں قتل کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے مشہور زمانہ شاہ زیب خان قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور اس کے دیگر ساتھیوں کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ ملزمان نے سپریم کورٹ میں عمرقید کے خلاف درخواستیں دائر کررکھی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

باغوں کا شہر لاہور یا جرائم کا گڑھ، 9ماہ میں 12ہزار ڈکیتی کی وارداتیں رپورٹ

سود کیخلاف تاریخی فیصلہ دینے والے سابق چیف جسٹس شریعت عدالت خاران میں شہید

دوران سماعت ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ فریقین کے درمیان راضی نامہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ قتل کے ایک واقعے کو دہشتگردی کا رنگ دیا گیا۔

واضح رہے کہ جون 2013 میں ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی جبکہ دیگر مجرموں نواب سجاد اور غلام مرتضٰی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سزائے موت سنائے جانے کے بعد نومبر 2013 میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے ماتحت عدالت کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کی تھی۔

2017 میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت صلح نامے کے بعد ملزم شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔

تاہم فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے بعد سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اس مقدمے میں ملوث چاروں مجرمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد انھیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا۔

شاہ زیب خان کی ہلاکت کا واقعہ 24 دسمبر 2012 کی شب کراچی میں ڈیفینس کے علاقے میں پیش آیا تھا جہاں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے انھیں قتل کر دیا تھا۔

متعلقہ تحاریر