نشتراسپتال واقعہ: لاپتہ افراد یا اعضاء کی فروخت، معاملہ قومی اسمبلی میں پہنچ گیا
ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت سے 500 لاشوں کی باقیات بر آمدگی کا معاملہ قومی اسمبلی تک پہنچ گیا ، حکمران اتحاد نے بر آمد ہونے والی 500 لاشوں کی باقیات کے ڈین این اے ٹیسٹ کروانے اور واقعے کی پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے، دوسری جانب شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے اس معاملے پر انسانی اعضا فروخت کرنے والا کوئی گروپ بھی ملوث ہو سکتا ہے

ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت سے 500 لاشوں کی باقیات بر آمد ہونے کی گونج قومی اسمبلی تک پہنچ گئی۔ حکمران اتحاد کے ارکان قومی اسمبلی نے مسخ شدہ لاشوں کے ڈی این اے کروانے کا مطالبہ کردیا ہے ۔
حکمران اتحاد کےارکان قومی اسمبلی نے ملتان کے نشتراسپتال سے برآمد ہونے والی 500 لاشوں کی باقیات کے ڈین این اے ٹیسٹ کروانے اور واقعے کی پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے ۔
یہ بھی پڑھیے
نشتر اسپتال ملتان میں لاشوں کی بے حرمتی کا انکشاف، 500 لاشوں کے باقیات برآمد
قومی اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر ایم کیو ایم پاکستان کی رکن قومی اسمبلی کشور زہرا نے اس خدشے کے پیش نظر یہ لاشیں لاپتہ افراد کی ہوسکتی ہے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے ۔
کشور زہرا کے مطالبے پر پیپلزپارٹی کے عبدالقادر مندوخیل اور محسن داوڑ ان کی حمایت کی۔ قومی اسمبلی کے ارکان نے واقعے کی پارلیمانی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ ہے ۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے معاملے کو ٹالنے کے لیے اسے صوبائی معاملہ قرار دیا تاہم شدید احتجاج کے بعد انہوں نے پنجاب حکومت سے رپورٹ طلب کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔
وزیر مملکت برائے داخلہ عبدالرحمان کانجو نے بھی قانون سازوں کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی شناخت کے لیے ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے۔
قومی اسمبلی کے معاملہ اس وقت آیا جب اطلاعات آئیں کہ نشتراسپتال واقعے کی رپورٹ پر وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ نے کارروائی کرتے ہوئے تین ڈاکٹرز اور 2 پولیس افسران کو معطل کردیا تھا ۔
وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نےنشتر اسپتال ملتان کے دو اسٹیشن ہاؤس آفیسرز (ایس ایچ اوز) کے علاوہ تین ڈاکٹروں اور دیگر ملازمین کو برطرف کرنے کےا حکامات جاری کیے ۔
یہ بھی پڑھیے
نشتر اسپتال میں 500 لاوارث لاشو ں کامعاملہ 200روپے فیس کے تنازع کا شاخسانہ نکلا
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ لاشوں کے ساتھ ایسا سلوک ناقابل قبول ہے۔ میتوں کی تدفین کے حوالے سے اسلامی احکامات واضح ہیں، لاشوں کو چھت پر پھینک پر غیرانسانی فعل کیا گیا ہے ۔
دوسری جانب اطلاعات یہ بھی آرہی ہے کہ اس میں کوئی انسانی اعضاء فروخت کرنے والا گروپ ملوث ہو جوکہ انسانی اعضاء نکال کر لاشوں کی تدفین کا موقع نہ ملنے پر اسپتال میں جمع کررہا تھا ۔
انگریزی اخبار ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)، پنجاب کے محکمہ داخلہ، محکمہ صحت نامعلوم اور لاوارث لاشوں اور مریضوں کی شناخت کیلیے فنڈز مختص کرنے کابوجھ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے نشتر اسپتال کی چھت پر بڑی تعداد میں اسانی لاشوں کی باقیات کی وڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی ۔ درجنوں لاشوں کی باقیات بر آمد ہونے پر قوم سخت اضطراب کا شکار ہے ۔