حکومتی دعوے کے برخلاف ارشد شریف کو لاحق خطرات کے ثبوت سامنے آگئے

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن ارشد شریف کے پیغام کا اسکرین شارٹ سامنے لے آیا، مقتول نے عالمی ادارے کو اپنی جان کو حکام سے لاحق خطرات سے آگاہ کیاتھا، شیریں مزاری کا بھی اپنے فون میں ثبوتوں کی موجودگی کادعویٰ، مقتول نے صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط لکھ کر خود کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا تھا۔

پاکستان کے اعلیٰ ترین حساس ادارے کے سربراہ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ شہید صحافی ارشد شریف کی جان کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا تاہم  سیاسی و صحافتی شخصیات اورایک  بین الاقوامی ادارہ ارشد شریف کی جان کو لاحق خطرات کے شواہد سامنے لے آیا۔

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن ، تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری  اور   سینئر اینکر کاشف عباسی مقتول کی جان کو لاحق خطرات  کے شواہد پیش کردیے۔

یہ بھی پڑھیے

سینیٹر اعظم سواتی  نے دوران حراست مبینہ تشدد میں ملوث افسران کے نام بتادیے

بزرگ صحافی چوہدری غلام حسین 11سال پرانے مقدمے میں گرفتار

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نےاپنے ایک ٹوئٹ  میں ارشد شریف سے ہونے والی گفتگو کا ایک اسنیپ شاٹ شیئر کردیا جس میں ارشد شریف نے اپنی جان کو لاحق خطرات کا ذکر کیا تھا۔

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نےاپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ”ارشد شریف پاکستانی حکام کی جانب سے اپنی جان کو لاحق سنگین خطرات سے آگاہ تھے، پھر بھی ان کی سوچ اپنے ساتھی پاکستانیوں کے انسانی حقوق کے دفاع پر مرکوز تھی۔ وہ ایک حقیقی ہیرو، بہادر اور دوسروں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والے  تھے،واقعے کی آزادانہ  تفتیش   ہونی چاہیے ‘‘۔

 ادھر تحریک انصاف کی سینئر رہنما اور سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئےارشد شریف کی جان کو لاحق خطرات کی تصدیق کردی۔ انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ارشد شریف کی جان کو خطرات لاحق نہ ہونے کے بیان پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کینیا میں اپنے وحشیانہ قتل سے تین دن پہلے ان سے رابطے میں تھے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ان کے پاس ارشد شریف کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے ریکارڈ موجود ہیں جس میں انہوں نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شریف نے 26 اگست کو اپنا واٹس ایپ بند کر دیا۔ جس کے بعد انہوں نے ارشد شریف سے ان کی خیریت دریافت کرنے کیلیے ٹوئٹر پر ایک پیغام چھوڑا تھا۔

شیریں مزاری نے کہا کہ مقےتول اینکر نے انہیں پیغام بھیجا کہ وہ کہیں چھپے ہوئے ہیں اور انہیں بتایا کہ ان کے پیچھے کچھ قاتل بھیجے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے انٹرویوز میں متعدد بارمقتول  کی جان کو لاحق خطرات کو اجاگر کیا جب کہ عمران خان نے  بھی ارشد شریف کو چوکنا رہنے کو کہا تھا ۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ارشد نے یکم اکتوبر کو اپنا واٹس ایپ دوبارہ کھولا تھا جس پر انہوں نے دوبارہ انہیں خبردار کیا کہ وہ محتاط رہیں کیونکہ ان کے وی لاگز کے پس منظر سے ان کی لوکیشن بے نقاب ہو سکتی تھی۔

ارشد شریف نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے حوالے سے ریاست پاکستان کیخلاف ایک درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی دائر کررکھی تھی جس کی سماعت گزشتہ روزہونی تھی ۔

واضح رہے کہ جولائی میں مقتول صحافی نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو اپنی اور دیگر صحافیوں کی جان کو لاحق خطرات کے حوالے سے خط بھیجا تھا۔ حکومت کی جانب سے ان کے خلاف مختلف مقدمات کے اندراج کے بعد صحافی پر دباؤ بھی بڑھ گیا تھا۔

اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن کاشف عباسی نے مقتول کے صدر کو لکھے گئے خط کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر تحفظ مانگا۔

کاشف عباسی نے بتایا کہ ارشد شریف نے 5 جولائی کو صدر پاکستان ا ور چیف جسٹس کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ اس کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہیں، صدر مملکت نے اسی روز وہ خط وزیراعظم کوارسال کردیا تھا۔

کاشف عباسی  نے ریاستی ادارے کے اس دعوے کی بھی تردید کی کہ ارشد شریف  نے ویزا ختم ہونے پر دبئی چھوڑا تھا۔ انہوں نے مقتول کے ویزا کی نقل دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جب ارشد شریف نے دبئی چھوڑ اکو اس کا 18 دن کا ویزا باقی تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ارشد شریف نے انہیں خود بتایا تھا کہ دبئی کے حکام ان سے ہوٹل میں ملنے آئے ہیں اور انہیں فوری پر طور پر دبئی چھوڑنے کا کہا گیاہے۔

یاد رہے کہ ارشد شریف کو اتوار کی رات کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ارشد شریف کا شمار پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے ملک کے اہم سیاسی واقعات کی کوریج کر رکھی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بعد مقتول سینئر صحافی کے اہل خانہ نے ان کی موت کو ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا۔

وفاقی حکومت نے صحافی کے قتل کیس کی عدالتی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا اور دو رکنی کمیٹی تشکیل دی جو شواہد اکٹھے کرنے کے لیے کینیا روانہ ہوگئی۔مقتول صحافی کو 27 اکتوبر کو اسلام آباد میں سپرد خاک کیا گیا۔

متعلقہ تحاریر