کینیا میں ارشد شریف قتل کیس کے 2 اہم گواہان کے بیانات ریکارڈ
دوست کے کہنے پرارشد کی میزبانی کی، واقعے سے قبل ارشد نے ہمارے ساتھ کھاناکھایا،واقعہ شناخت میں غلطی کا شاخسانہ ہے،ارشد کا آئی پیڈ اور موبائل کینین حکام کو دیدیا،خرم احمد اور وقار احمد کا بیان

کینیا میں پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی تفتیش میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ پاکستان سے جانے والی 2 رکنی تحقیقاتی ٹیم نے نیروبی میں مقتول کی میزبانی کرنےو الے 2 اہم گواہوں خرم احمد اور وقار احمد کے بیانات ریکارڈ کرلیے ۔
نجی ٹی وی چینلز کے مطابق انکوائری کمیٹی نے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ارشد شریف کے قتل کے وقت گاڑی چلانے والے خرم احمد اور اس کے بھائی وقار احمد سے ملاقات کی اور واقعے سے متعلق سوالات کیے ۔
یہ بھی پڑھیے
ارشد شریف کی بیوہ نے وقار احمد اور انکی فیملی کو کلین چٹ دے دی
ارشد شریف کے بعد سینئر صحافی معید پیرزادہ بھی ملک چھوڑ گئے
انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے افسران پر مشتمل 2 رکنی کمیٹی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلیے اس وقت کینیا میں موجود ہے۔
نیوز چینلزکے مطابق ارشد شریف ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے، جو دونوں بھائیوں کی ملکیت ہے لیکن آئی بی یا ایف آئی اے کی جانب سے اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ کمیٹی نے خرم اور وقار احمد سے پوچھ گچھ کی ہے۔
ٹی وی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ خرم احمد اور وقار احمد، جنہوں نے ارشد شریف کے قتل کو”غلط شناخت“کا نتیجہ قرار دیا دیا ہے۔ وقار نے مبینہ طور پر تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ اس نے اپنے دوست کے کہنے پر ارشد کی میزبانی کی تھی لیکن انہوں نے دوسے کی شناخت ظاہر نہیں کی ۔
ٹی وی رپورٹس کے مطابق وقار نے بتایا کہ ’’میں ارشد سے صرف ایک بار نیروبی کے باہر ان کے لاج میں کھانے کے دوران ملا تھا۔‘‘ اے آر وائی نیوز نے وقار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ”واقعے کے دن ارشد نے ہمارے ساتھ ہمارے لاج میں کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد ارشد میرے بھائی خرم کے ساتھ گاڑی میں چلا گیا اور 30 منٹ بعد گاڑی پر فائرنگ کی اطلاع ملی“۔
وقار نے مبینہ طور پر تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ اس کا بھائی خرم احمد فائرنگ سے معجزانہ طور پر محفوظ رہا اور "ہم نے ارشد کا آئی پیڈ اور موبائل فون کینیا کے حکام کے حوالے کر دیاہے“۔
چینل کے مطابق دونوں بھائیوں نے پاکستانی تفتیشی افسران کو بتایا کہ مقتول ارشد شریف نیروبی منتقل ہونے کا منصوبہ بنا رہے تھے ا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ویزے میں توسیع بھی کروائی تھی۔