لندن سے چوری کی گئی بینٹلے ملسن کی تحقیقات میں سفارتی استثنیٰ رکاوٹ بن گیا
گاڑی 2019 میں بلغاریہ کے سفیر الیگزینڈر بوریسوف پاراشکیوف نے رجسٹرڈ کی تھی، سفارتی استثنیٰ کے باعث عبوری فرد جرم میں غیرملکی مشن کو کلین چٹ دی گئی،اس اسکینڈل میں ملوث کسی بھی غیر ملکی سفارت کار کے خلاف کارروائی بہت مشکل ہے، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر

لندن سے چوری کے بعد یورپی سفارتکارکے نام پر پاکستان درآمد کی جانے والی بینٹلے ملسن کی تحقیقات کو پر اسرار یت نے گھیر لیا ہے، اس بات کا انکشاف ہواہے کہ سفارتی استثنیٰ نے تفتیش کاروں کے ساتھ ساتھ استغاثہ کے کام کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ستمبر کے اوائل میں کسٹمز حکام نے ڈی ایچ اے کراچی کے ایک گھر سے 4کروڑ 14 لاکھ 39ہزار 322روپےمالیت کی 2014ماڈل کی بینٹلے ملسن وی 8 برآمد کی تھی۔
گاڑی کی برآمدگی کے فوری بعد مقامی خریدار جمیل شفیع اور نوید بلوانی کو گاڑی کی کلیئرنس میں غیرقانونی سہولت کاری کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
لندن سے لگژری کار چوری کا کیس: کسٹم کورٹ نے تاریخ سماعت مقرر کردی
لندن سے چوری ہونے والی ‘بینٹلے ملسن’ گاڑی کا معاملہ، سندھ کی بڑی شخصیات کے نام سامنے آگئے
یہ مقدمہ کسٹم کی خصوصی عدالت کے سامنے زیر التوا ہے جس نے حتمی فرد کر، جمع کرانے کے لیے 11 جنوری 2023 کی تاریخ مقرر کی ہے۔انگریزی روزنامہ ڈان کو دستیاب دستاویزات میں بتایا گیا تھا کہ اعلیٰ درجے کی گاڑی اسلام آباد میں تعینات ایک یورپی سفارت کار نے 2019 میں درآمد کی تھی۔
گاڑی کا رجسٹریشن نمبر BRS-279 تھا ، محکمہ ایکسائز سندھ کے آن لائن تصدیقی پورٹل پر رجسٹریشن نمبر کی فوری تلاش کے دوران انکشاف ہوا کہ یہ گاڑی 21 مئی 2020 کو ایچ ای الیگزینڈر بوریسوف پاراشکیوف کے نام پر رجسٹرڈکی گئی تھی۔
سرکاری دستاویزات میں مزید بتایا گیا ہے کہ کسٹم حکام نے ماضی میں کراچی میں اعلیٰ درجے کی گاڑی کو ضبط کرنے کی کوشش کی تھی تاہم بلغاریہ کے سفارت خانے نے مداخلت کی اور وزارت خارجہ کو بتایا کہ گاڑی غیر ملکی مشن کے سروس اسٹاف کے زیراستعمال تھی اور اسے کسی کو فروخت نہیں کیا گیا تھا، اس لیے حکمہ کسٹم کے پاس گاڑی کو ضبط کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
کہانی کا آغاز 2019 میں پاکستان میں بلغاریہ کے سفیر کی جانب سے گاڑی کی درآمد سے ہوا تھا۔نومبر 2019 کو حکومت پاکستان نے سفارتی افسران اور مشنز کے ذریعے اپنے ذاتی استعمال کے لیے بیرون ملک سے قابل ڈیوٹی سامان درآمد کرنے کے لیے بلغاریہ کے سفارت خانے کے مسٹر پاراشکیوف کے حق میں استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔
بلغاریہ کے سفارت خانے کی طرف سے 26 دسمبر 2019 کو محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ کو لکھے گئے ایک سرکاری خط میں کہا گیا ہے کہ کنسائنمنٹ (بینٹلی ملسن) اس وقت کے سفیر الیگزینڈر بوریسوف پاراشکیوف کی ملکیت تھی۔ سفارتخانے نے سندھ حکومت سے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر گاڑی کی کور رجسٹریشن نمبر پلیٹ جاری کرے ۔
8 جنوری 2020 کو وزارت خارجہ نے سفارتی گاڑی کے لیے ایک غیر منتقلی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا جس کا رجسٹریشن نمبر CD-09-13 تھا۔
اس واقعے نےاس وقت ایک نیا رخ اختیار کیا جب کسٹم حکام نے عدالت میں جمع کرائی گئی عبوری فرد جرم میں بظاہر غیر ملکی مشن کو کلین چٹ دے دی اورجمیل شفیع، نوید بلوانی اور محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے نامعلوم اہلکاروں سمیت 6 پاکستانیوں کو مختلف سفارت خانوں کے لیے سفارتی چھوٹ کے تحت گاڑیوں کی غیرقانونی کلیئرنس میں ملوث قرار دیاگیا ہے۔
تفتیشی افسر مدثر علی نے عبوری چارج شیٹ میں کہا کہ کلیئرنگ ایجنٹ کی طرف سے جمع کرائے گئے کاغذات/دستاویزات کی چھان بین کے دوران بلغاریہ کے سفارت خانے کی طرف سے مبینہ طور پر ای ٹی او، ڈپٹی کلکٹر آف کسٹمز، میسرز ہاپاگ للائیڈ کو پانچ خطوط لکھے گئے تھے۔ 25/11/2019 کو جاری کردہ تمام خطوط بغیر کسی دستخط کے منظر عام پر آئے تھے جو مختلف محکموں سے گاڑی کی کلیئرنس کے دوران استعمال کیے گئے تھے۔
چارج شیٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ بھی ایک قائم شدہ حقیقت ہے کہ بلغاریہ کے سفارت خانے کی طرف سے ایم ایس اوشین سینٹر اور ایم ایس فوکس شپنگ ایجنسیوں کو خدمات یا ڈیلیوری آرڈر کی ادائیگی کی مد کوئی رقم ادا نہیں کی گئی تھی ، یہ تمام ادائیگیاں نجی طور پر نقد میں کی گئی تھیں اور سفارت خانے سے ادائیگی کے حوالے سے اب تک کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ گاڑی بلغاریہ کے سفارت خانے کی ہے۔
کسٹمز ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ چونکہ اس معاملے میں غیر ملکی سفارت خانہ شامل ہے، اس لیے وزارت خارجہ اس معاملے کو دیکھے گی ۔ ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ”یہاں تک کہ اگر کوئی غیر ملکی سفارت کار اس جعلسازی میں ملوث پایا جاتا ہے۔ سفارتی اور قونصلر استحقاق ایکٹ 1972 کے تحت وزارت خارجہ کی طرف سے دی گئی سفارتی استثنیٰ کی موجودگی میں اس پر فرد جرم عائد کرنے اور مقدمہ چلانے کا کوئی امکان نہیں ہے “۔
تاہم کسٹم ڈپارٹمنٹ کے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر عاشق اعوان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ کیس میں کسی بھی غیر ملکی کو چارج شیٹ کرنے کے معاملے کا فیصلہ حتمی چارج شیٹ میں کیا جائے گا۔
جب کہ حتمی فردجرم داخل ہونا ابھی باقی ہے، عبوری فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نوید اور فہد احمد خان (میسرز فوکس شپنگ ایجنسیز کے ملازم، جو اس کیس میں استغاثہ کے گواہ ہیں) کے درمیان واٹس ایپ رابطے نے ظاہر کیا تھا کہ یہ یہ صرف ایک گاڑی کا معاملہ نہیں تھا جو سفارتی حقوق کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسمگل کیا گیا تھا بلکہ اسمگل شدہ گاڑیوں کی بہتات ہے ۔
اس میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی ایجنسی کھیپ کے سابقہ واقعات کی تصدیق کے لیے مختلف حلقوں سے رجوع کر رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ ڈیٹا کی جانچ اور تصدیق بھی جاری ہے۔
تاہم کسٹم ذرائع کا خیال ہے کہ مختلف سفارت خانوں کے نام پر مبینہ طور پر اسمگل کی جانے والی دیگر گاڑیوں کے معاملے میں مزید پیش رفت سے ایک نیا پنڈورا باکس کھل سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اسکینڈل میں ملوث کسی بھی غیر ملکی سفارت کار کے خلاف پاکستان میں قانونی چارہ جوئی کرنا بہت مشکل ہے،کیونکہ سفارتی استثنیٰ انہیں کسی بھی قسم کی مجرمانہ کارروائی سے بچا سکتا ہے۔