لانگ مارچ: سپریم کورٹ کا عدالتی احکامات کو نظرانداز کرنے پر کارروائی کا عندیہ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کافی مواد موجود تھا۔

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے عدالتی احکامات اور دی گئی یقین دہانیوں کو نظر انداز کرنے پر علیحدہ کارروائی کی ضرورت ہے، جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ میں کہنا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، اس حوالے سےکافی مواد موجود ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور سڑکوں کی بندش سے متعلق درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت عظمیٰ نے مختصر فیصلہ دیا تھا،آج اس حوالے سےچیف جسٹس عمر عطا بندیال کا تحریر کردہ 14 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ کےفیصلے میں درخواست نمٹاتے ہوئے کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی جانب سے دائر  درخواست کا مقصد پورا ہوچکا کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاجی لانگ مارچ ختم کرتے ہوئے تمام شاہراہیں کھول دیں اور شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔

عدالت عالیہ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ اختلافی نوٹ میں ان کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ اس حوالے سے توہین عدالت کی کارروائی کا کافی مواد موجود ہے۔

عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں اسلام آباد انتظامیہ اور دیگر حکام سے سے دھرنے سے متعلق سوالات کے جواب ایک ہفتے میں طلب کر لئے جن کی روشنی میں ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ عدالت کی حکم عدولی ہوئی یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے آئی جی پولیس، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی جی انٹیلیجنس بیورو اور ڈی جی آئی ایس آئی کے علاوہ سیکرٹری وزارت داخلہ سے بھی جن سوالوں کے جواب طلب کئے ہیں ان میں دریافت کیا گیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے  اپنی جماعت کے کارکنوں کو کس وقت ڈی چوک جانے کی ہدایت کی؟۔

کس وقت پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک میں لگی رکاوٹوں سے آگے نکلے؟۔

کیا کوئی ڈی چوک ریڈ زون میں داخل ہونے والے ہجوم کی نگرانی کررہا تھا؟۔

کیا حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟۔

عدالت نے دریافت کیا ہے کہ ریڈ زون میں کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہوئے؟۔

ریڈ زون کی سکیورٹی کے انتظامات کیا تھے؟۔

عدالت عالیہ نے فیصلے میں دیگر کئی سوالات کے جواب بھی مانگے ہیں۔ان ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ عدالت کی حکم عدولی ہوئی یا نہیں اور  کیا حکومت کی جانب سے کرائی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی درخواست نمٹا دی۔

متعلقہ تحاریر