سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ بازیابی کیس کا فیصلہ آج صبح محفوظ کیا تھا ، جس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔
دعا زہرہ اپنی مرضی سے جس کے ساتھ جانا چاہے یا رہنا چاہے رہے سکتی ہے، سندھ ہائی کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ یہ اغواء کا کیس نہیں بنتا ہے۔ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ یہ اغواء کا کیس نہیں بنتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کا تحریری حکم نامہ تین صفحات پر مشتمل ہے۔ تحریری فیصلے کے مطابق عدالت نے دعا زہرا کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازات دے دی۔
تحریری حکم کے مطابق عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر کو کیس کا ضمنی چالان جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے تحریری حکم کے مطابق کیس کے تفتیشی افسر کو عمر کے تعین سے متعلق میڈیکل سرٹیفکیٹ اور بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔



عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ دعا زہرا کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کرنا سندھ حکومت کی صوابدید ہے ، ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق کاروائی جاری رکھے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ پولیس ظہیر احمد کے خلاف مقدمے میں پیش رفت کے بعد چالان جمع کرانے کی پابند ہوگی۔ بعدازاں عدالت نے دعا زہرا کی بازیابی سے متعلق درخواست نمٹا دی۔
آج صبح ہونے والی سماعت کی تفصیل
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے دعا زہرا کیس کی سماعت کی ، پولیس کی جانب سے دعا زہرہ اور اس کے شوہر ظہیر احمد کو عدالت میں پیش کیا۔ پولیس نے دعا زہرہ کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کردی۔
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کی عمر 17 سال ہے۔
دعا زہرہ کی عمر کا تعین ہوگیا، میڈیکل رپورٹ سامنے آگئی
کراچی کے علاقے گرین ٹاؤن کی رہائشی دعا زہرہ کی میڈیکل رپورٹ سامنے آگئی
میڈیکل رپورٹ کے مطابق دعا زہرہ کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان ہے، پولیس سرجن ایج سرٹیفکیٹ کے مطابق دعا زہرہ کی عمر تقریباً 16 سے 17 سال کے درمیان ہے۔ pic.twitter.com/J8Px9O2wSW
— muneer aqeel ansari (@muneeraqeel) June 7, 2022
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ لڑکی کے تمام دستاویزات کے مطابق عمر 14 سال ہے ، عدالت نے گزشتہ سماعت پر میڈیکل کرانے کا حکم دیا تھا، ہم نے کچھ دستاویزات پیش کرنی ہے۔
جسٹس جنید غفار نے ریمارکس دیئے کہ یہ سب دستاویزات آپ ٹرائل کورٹ میں پیش کیجیئے گا یہاں پر دعا زہرہ بازیابی کیس کی سماعت ہورہی تھی جو بازیاب ہو گئی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا یہ درخواست نمٹا دیں معاملہ ٹرائل کورٹ میں بھیجا جائے ، ٹرائل کورٹ میں چالان بھی جمع کرایا جاچکا ہے۔
جسٹس جنید غفار کا کہنا تھا لڑکی کو دوبارہ لاہور کی عدالت میں ہیش کیا جائے گا ، ہمارے پاس جو درخواست تھی اس کے مقاصد حاصل ہوچکے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ بچی کو کل لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا جانا ہے اس کی اجازت دی جائے۔
اس پر عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہے بچوں کو وہاں جاکر پیش کردیں۔
اس سے قبل عدالت نے دعا زہرہ سے پوچھا کہ آپ والدین سے ملنا چاہتی ہیں ؟
دعا زہرہ نے روتے ہوئے کہا کہ میں والدین سے نہیں ملنا چاہتی ، تاہم عدالت نے والدین کو جج کے چیمبر میں ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔ جج نے دعا زہرہ سے کہا کہ آپ تسلی رکھیں کچھ نہیں ہوگا۔
ملاقات کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس امجد سہتو کا کہنا تھا ڈیولپمنٹ ہوچکی ہے لڑکی کا بیان ہوگیا، عمر کا تعین ہوگیا ، اب بیان اور شواہد کے مطابق کیس ٹرائل کورٹ میں چلے گا۔









