پاکستان کو دوطرفہ قرضوں کی ری شیڈولنگ ابھی سے کرنا ہوگی، رپورٹ
ٹاپ لائن سیکورٹیز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو معاشی بحران معاشی مصیبت میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ 25 سالوں کے دوران پاکستان کا معاشی بحران ، معاشی مصیبت میں تبدیل ہو گیا ہے ، پاکستانی معیشت اپنی 75 سالہ تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔
پاکستان کی ایک اعلیٰ بروکریج فرم ٹاپ لائن پاکستانی معیشت پر رپورٹ تیار کرتے ہوئے کچھ اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافے کے باعث سیمنٹ کی فروخت میں18 فیصد کمی
زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ، روپے کی قدر میں کمی اور دیگر سخت اقدامات کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہورہا ہے ، لیکن سب سے بڑی پریشانی بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے۔
آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کو اگلے تین سالوں (مالی سال 2023-2025) میں 73 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔ جبکہ پاکستان کے پاس اس وقت موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 7 سے 8 ارب ڈالر ہیں۔
ٹاپ لائن سیکورٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ بھاری ادائیگیاں بڑے بیرونی قرضوں کی وجہ سے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ 7 سالوں میں یعنی مالی سال 2015 تک یہ قرضے 65 بلین ڈالر تھے جوکہ جی ڈی پی کا 24 فیصد تھے ، اور اب مالی سال 2022 تک یہ قرضے بڑھ کر 130 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جوکہ جی ڈی پی 40 فیصد ہیں۔
نتیجتاً پاکستان کو مالی سال 2015 میں کل قرضے اور واجبات کی مد میں (ملکی اور بیرونی) 19.9 کھرب روپے ادا کرنے تھے ، جوکہ (جی ڈی پی کا 72 فیصد) تھے ، اب مالی سال 2022 میں یہ بڑھ کر 60 کھرب روپے ہو گئے جوکہ (جی ڈی پی کا 90%) ہیں۔
ٹاپ لائن سیکورٹی ایجنسی کے رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے اس بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کو قرضوں کی ری شیڈولنگ کا انتخاب کرنا ہوگا۔
پاکستان کے ذمے قرضوں کا 30 فیصد صرف چین کے قرضوں کا بنتا ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور اگلے 3-5 سالوں کے لیے IMF کی قیادت میں کم از کم 30 بلین امریکی ڈالر کے قرض کی تنظیم نو کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پہلے قرض دین والے ممالک اور مالیاتی اداروں کے ساتھ دو طرفہ ری شیڈولنگ کا اشارہ دے چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت جتنی جلدی اس پر عمل شروع کرے گی اتنا ہی بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ مخلوط حکومت سیاسی وجوہات کی بنا پر اس میں تاخیر کرتی ہے تو 2023 کے انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کو یہ کرنا ہی پڑے گا۔