ارشد شریف کے قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سپریم کورٹ کو موصول ، تین نکات اہم ہیں

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق قتل ٹارگٹ کلنگ تھا ، ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا جبکہ پاکستان چھوڑنے کی وجوہات وہ 16 ایف آئی آرز تھیں جو اس کے خلاف درج تھیں۔

سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد تحقیقاتی کمیٹی کی 592 صفحات پر مشتمل رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرا دی گئی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ جس کے لئے کینیا کے جی ایس یو کے اہلکار استعمال ہوئے۔

صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کی تحقیقات کے قائم کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے جس کے تحت تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، کینیا پولیس نے تحقیقات میں کوئی معاونت نہیں کی، کیس میں کئی غیرملکی اداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے، ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے جبکہ وقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے کینیا کا دورہ کرکے حقائق جمع کئے تھے تاہم کمیٹی نے ابتداء میں ہی کہا ہے کہ اس رپورٹ کو مکمل تحقیقات نہ سمجھا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے پاکستان چھوڑنے کی وجوہات مختلف اضلاع میں مقدمات کا اندراج تھا ، جب کہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام نے انہیں ملک چھوڑنے کا کہا تھا۔ وقار نے ارشد شریف کا آئی فون اور آئی پیڈ پولیس کے حوالے کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ قتل میں کینیا کے جی ایس یو کے اہلکار استعمال ہوئے۔ جی ایس یو اہلکار پر مالی یا جبری دباؤ تھا۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے اطہر وحید اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (ڈی ڈی جی) آئی بی عمر شاہد نے تیار کی، تحقیقاتی ٹیم کی کینیا اور متحدہ عرب امارات میں کارروائی رپورٹ کا حصہ ہے، ارشد شریف قتل کیس میں زیر استعمال گاڑی، نقشہ جات، کرائم سین کا جائزہ بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔

23 اکتوبر سے لے کر ارشد شریف کے قتل تک کینیا میں ہونے والے تمام واقعات رپورٹ کا حصہ ہیں جبکہ ارشد شریف قتل کیس میں استعمال اسلحہ، بیلسٹک رپورٹ بھی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں شامل ہے۔

ارشد شریف کی گاڑی خرم چلا رہا تھا، خرم کے بیانات میں تضاد پایا گیا ہے ، ارشد شریف کو کمر پر بھی گولی ماری گی۔

جبکہ ارشد شریف کے سیٹ پر گولی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ کمر پر لگنے والی گولی واقعہ کو مشکوک بناتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کینیا پولیس اور جی ایس یو کے بیانات میں بہت زیادہ تضاد ہے۔ کینیا حکام بالا اور پولیس کے بیانات قابل بھروسہ نہیں۔

یہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کیا گیا ہے۔ یہ غلطی کی بنیاد پر نہیں بلکہ منصوبہ بندی کی بنیاد پر قتل کیا گیا

ارشد شریف کا تمام سفری ریکارڈ بھی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ ارشد شریف کے موبائل فون، ڈیوائسز، واٹس ایپ اور ای میل کی جائزہ رپورٹ بھی فیکٹ فائنڈنگ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

سینئر صحافی کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کرنے کے محرکات، درج ایف آئی آرز، خیبر پختونخوا سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری تھریٹ الرٹ بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹس کے اہم نکات میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف نے مختلف اضلاع میں فوجداری مقدمات کے اندراج کے باعث ملک چھوڑا، ممکن ہے ارشد شریف نے یو اے ای اتھارٹی کے دباؤ پر یو اے ای چھوڑا ہو، کینیا کا جی ایس یو پولیس حکام اور اوسی ٹریننگ کمیپ مالی یا کسی اور اثرورسوخ کے باعث اسعتمال ہوا ، وقار کینیا کی نیشنل انٹیلی جنس سروس، پولیس اور عالمی ایجنسیوں سے ساتھ رابطہ میں تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وقار کے کینیا اور عالمی ایجنسیوں کے ساتھ روابط ظاہر کرتے ہیں کہ مزید غیر ملکی کردار ملوث ہو سکتے ہیں، ارشد شریف کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود خرم کے بیانات منطق اور حقائق کے برعکس ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کی کارسیٹ پر گولی کا کوئی نشان نہیں، سینئر صحافی کے سینے میں دائیں جانب سے گولی نکلی مگر سیٹ کو نہیں لگی، ارشد شریف کی بیٹھنے کی پوزیشن اور گولی لگنے کی پوزیشن میں کوئی مطابقت نہیں لگتی، کینیا پولیس کا شناخت میں غلطی کا دعویٰ تضادات سے بھرا ہوا ہے، جی ایس یو پولیس حکام کا موقف ناقابل یقین ہے۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ، غیرملکی عناصر ملوث تھے، ارشد شریف پر قتل سے قبل تشدد ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔

سپریم کورٹ کو موصول ہونے والی رپورٹ پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں تین حقائق ایسے ہیں اگر حکومت مکمل جانفشانی سے تحقیقات کرائے گی تو اصل قاتلوں تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر