روحانی باپ کی ہوس پرستی

لاہور ميں مدرسے کے مولوی کی اپنے طالبعلم کے ساتھ بدفعلی کی ويڈيو کافی زيادہ وائرل ہے بلکہ يوں کہا جائے کہ سوشل ميڈيا پر ہنگامہ مچا ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ويڈيوز سامنے آنے کے بعد مدرسے والوں نے مفتی کو نوکری سے برخاست کرديا ہے۔ سنا ہے کہ ان کے خلاف پرچہ بھی کٹ گيا ہے۔ ويڈيو بنانے والے متاثرہ لڑکے کا کہنا ہے کہ اسے جان کا خطرہ ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ يہ طالبعلم اکيلا مفتی کی ہوس کا شکار نہيں ہوا بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی اور متاثرين ہيں۔

70 برس کے مفتی عزيز الرحمان پچھلی کئی دہائيوں سے تدريس کے شعبے سے منسلک ہيں۔ اپنے ويڈيو بيان ميں قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہيں کہ انہيں چائے ميں نشہ آور چيز ملا کر پلائی گئی جس کے بعد انہيں کچھ ہوش نہ رہا۔ کہتے ہيں کہ يہ ويڈيو تو ڈھائی سال پرانی ہے، منظر عام پر اب لائی گئی ہے تاکہ انہيں مدرسے سے بے دخل کيا جاسکے۔ اب سننے ميں یہ بھی آرہا ہے کہ مفتی صاحب کی مزيد ويڈيوز سامنے آچکی ہيں جو ايک یا دو نہيں بلکہ کل ملا کر چودہ ہيں۔ جو نئی ويڈيو ہے اس ميں تو وہ مکمل ہوش ميں اور ہشاش بشاش نظر آرہے ہيں۔ قابل ذکر بات يہ ہے کہ يہ تمام ويڈيوز مختلف اوقات کی ہيں اور ايک ہی جگہ يعنی وفاق المدارس عربیہ کے دفتر کی ہيں۔ مفتی عزيز الرحمان کا تعلق جمعيت علمائے اسلام (ف) سے ہے ليکن اس واقعے پر مولانا فضل الرحمان کا بھی کوئی موقف سامنے نہيں آيا۔

یہ بھی پڑھیے

مفتی عزیز الرحمان کی نازیبا ویڈیو پر مولانا فضل الرحمان خاموش

بچوں کے ساتھ جنسی استحصال صرف ايشياء ميں نہيں بلکہ دنيا بھر ميں ہوتا آيا ہے۔ اگر يہ کہا جائے کہ ان کے لیے سب سے آسان ہدف بچے ہی ہيں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ دنیا بھر میں گرجا گھروں میں پادریوں اور دوسرے عیسائی مذہبی پیشواؤں کے بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات نے رومن کیتھولک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا، چلّی، جرمنی اور امریکا میں بچوں سے جنسی زیادتی کے نئے واقعات سامنے آئے ہیں۔ جرمنی ميں بھی گزشتہ چھ دہائیوں میں ہزاروں بچے پادریوں کی ہوس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے زیادہ تر 13 سال سے کم عمر لڑکے تھے۔ اس جرم ميں ملوث پادريوں کا يا تو تبادلہ کرديا جاتا تھا يا پھر معمولی پاپندياں لگا کر انہيں معطل کرديا جاتا تھا۔ اس دوران بچوں کے والدين کو بھی کبھی خبر نہيں دی گئی۔ يہ معاملات جب پوپ فرانسس تک پہنچے تو انہوں نے فوری ايکشن ليا جس کے بعد کئی پادريوں کو ان کے منصب سے ہٹاديا گيا۔ اس موقع پر پوپ فرانسس نے کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسي استحصال ’انسانی قربانی‘ جيسا فعل ہے۔ جو پادری بچوں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں وہ دراصل شیطان کے آلہ کار ہیں اور بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکبین کی کوئی بھی وضاحت قابل قبول نہیں ہے۔

پاکستان ميں مولويوں کی بچوں کے ساتھ جنسی زيادتی کے واقعات نئے نہيں ہیں۔ اس سے پہلے بھی بارہا ايسی ويڈيوز سامنے آتی رہی ہيں جن ميں مولوی حضرات بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بناتے نظر آتے ہيں جبکہ کئی بچوں کو موت کے گھاٹ تک اتارا جاچکا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مساجد ميں گانے کی شوٹ پر تو پرچے کٹ جاتے ہيں اور زمين آسمان ايک کرديئے جاتے ہيں مگر ان بچوں کے لیے آواز اٹھانے والا کوئی نہيں۔

ميرا سوال ہے کہ لاہور ميں قائم اس مدرسے ميں اتنا کچھ کئی سالوں سے ہورہا تھا، کيا کسی کو پتہ نہیں چلا؟ کتنے طالبعلم ان کی ہوس کا نشانہ بنے سب کے سب خاموش رہے؟ اس کی کيا وجہ ہے؟ کيا مفتی صاحب کی سرپرستی کوئی اور کررہا تھا؟ وہ اکيلے تھے يا مزيد علماء بھی ان کے ساتھ ملوث ہيں؟

پاکستان کے مدرسوں ميں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ انتہائی تشويشناک ہے مگر سوال يہ ہے کہ اس کا حل کيا ہے؟ اس کی سزا کیا ہے؟ کیا مدرسے سے نکال دینا کافی ہے؟ کیا ریاست مدینہ میں جنسی زیادتی کے فعل میں ملوث مولویوں کو شرعی سزا ملے گی؟ کیا زنا کرنے کی پاداش میں کوڑے مارے جائیں گے؟ اس معاملے کا سد باب کیسے کیا جائے؟ کیا ہر مسجد اور مدرسے کے کونے کونے ميں کيمرے نصب کردينے چاہئيں؟

جيسے کراچی ميں گزشتہ تيس چاليس سالوں سے قائم ہونے والی رہائشی اور کمرشل غير قانونی عمارتوں کو بنتے ديکھ کر ارباب اختيار خاموشی اختيار کرليتے ہيں ويسے ہی اس معاملے پر بھی سب کی آنکھيں بند ہيں۔

متعلقہ تحاریر