تکنیکی راؤنڈ کا اختتام ، آئی ایم ایف کے مطالبے وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے لیے درد سر
آئی ایم ایف نے ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے پیٹرول پر سیلز ٹیکس بڑھانے اور ڈیزل پر مزید 10 روپے فی لیٹر لیوی بڑھانے کا کہا ہے۔
شہباز شریف حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے سامنے بے بس، وزیر خزانہ اسحاق ڈار بند گلی میں چلے گئے، عوام کے لیے پیٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس مہنگی کرنے کا عذاب تیار کرلیا گیا۔
آئی ایم ایف نے تمام مشکل فیصلوں کے لیے بال وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی کورٹ میں ڈال دی، تمام تر مشکل اقدامات کا حتمی فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے
خیراتی اداروں سے ڈالر اکٹھے کروانے کا ڈار فارمولا معیشت بچاپائے گا؟
زرمبادلہ کے گھٹتے ذخائر اور گرتی برآمدات نے ملک کے کنگال ہونے کی نشاندہی کردی
پیٹرول پر سیلز ٹیکس لانے اور لیوی بڑھائے جانے کا امکان ہے، آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر پیٹرول مزید مہنگا ہونے کا خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر ڈیزل پر لیوی مزید 10 روپے فی لٹر بڑھانے کا خدشہ ہے اور فوری طور پر لیوی بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
چار روزہ تکینکی مذاکرات میں آئی ایم ایف نے سرکاری اداروں کے نقصانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور بجٹ خسارہ کنٹرول کرنے پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔
وفاقی حکومت نے بجٹ اخراجات میں تقریبا 611 ارب روپے کمی کا پلان دے دیا ہے اور سبسڈیز کو 675 ارب روپے سے کم کرکے 335 ارب کیا جائے گا جو بجٹ دستاویز میں موجود ہے۔
چار روزہ مذاکرات میں منی بجٹ لانے کے لیے بھی بات چیت کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کا مطالبہ کردیا ہے، اس طرح 37 سے 42 ارب روپے مزید جمع ہونے امکان ہے ، لیکن اس اضافے سے مہنگائی کا طوفان مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔
مختلف سیکٹرز میں سیلز ٹیکس کی رعایتی شرح ختم کرنے پر بھی غور کیا گیا ہے اور برآمدی شعبے میں سیلز ٹیکس کی لگ بھگ 110 ارب روپے کی رعایتیں ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
منی بجٹ کے مسودے میں فلڈ لیوی عائد کرنے کےلیے اہم شق شامل کرنے پر غور کیا گیا ہے اور امکان ہے کہ حکومت لگرژی آئٹمز کی درآمد پر مزید 3 فیصد فلڈ لیوی یا ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرسکتی ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا ہے اور پہلے مرحلے میں گریڈ 17 سے 22 تک کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
اس کا مقصد سرکاری افسران کے بے نامی جائیدادوں کی مکمل روک تھام کو ممکن بنانا ہے ، سرکاری افسران کی اثاثے منی لانڈرنگ سے کلیئر ہوسکیں گے۔ اس سلسلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق گریڈ 17 سے 22 تک افسران اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرنا لازمی ہوں گی، سرکاری افسران کو اندرون ملک اور بیرون ملک تمام اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے، گریڈ 17 سے 22 تک افسران کی اثاثوں کی تفصیلات متعلقہ اداروں کو شیئر بھی کی جاسکیں گی۔
نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ گریڈ 17 سے 22 تک افسران اور ان کے اہل خانہ کے بینکوں اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات جمع ہوں گی، تمام بینک سرکاری افسران اور ان کے اہل خانہ کے اکاؤنٹس کی تفصیلات ایف بی آر کو دینے کے پابند ہوں گے، بینکس سرکاری افسران اور ان کے اہل خانہ کی تفصیلات سال میں دو مرتبہ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔
نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ تمام بینکس 31 جنوری اور 31 جولائی کو تفصیلات ایف بی آر کو دیں گے، بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات کی شیئرنگ میں اسٹیٹ بینک سپروائزر کا کردار ادا کرے گا، ایف بی آر کی معاونت کے لیے بینکس فوکل پرسن مقرر کریں گے، تمام بینکس سرکاری افسران کے اکاؤنٹس کا ڈیٹا خفیہ رکھنے کے پابند ہوں گے، تمام بینک افسران کے اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے بھی پابند ہوں گے۔
آئی ایم ایف کا خسارے کے شکار سرکاری اداروں کی نجکاری پر زور دیا ہے۔ نجکاری کے ذریعے معیشت میں ریاستی عمل دخل محدود کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کا سرکاری اداروں کے ریگولر آڈٹ کرانے پر بھی زور دے رہا ہے۔ کرپشن، سرخ فیتہ کا خاتمہ، کاروبار اور ٹیکس کلچر کے فروغ کیلئے آسانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایل این جی پاور پلانٹس، ہاوس بلڈنگ فنانس سمیت کئی اداروں کی نجکاری کی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پی آئی اے، اسٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کے نقصانات میں کمی لانے پر زور دیا گیا ہے۔
چار روزہ مذاکرات میں معاشی ترقی، سرمایہ کاری، روزگار کیلئے ادارہ جاتی خامیاں دور کرنے پر بھی بات چیت ہوئی ہے ، سرکاری اور نجی اداروں کو یکساں مواقع و سہولیات فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔