ایف بی آر کو رواں مالی سال محصولات کی مد میں 278 ارب روپے خسارے کا سامنا
ایف بی آر مارچ میں طے شدہ ہدف سے 64 ارب روپے کم جمع کیے، درآمدات میں زبردست کمی اور ٹیکس کی مقامی وصولی میں ناکامی محصولات میں کمی کی بڑی وجہ قرارا

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) مارچ کے لیے اپنے وصولی کے ہدف سے تقریباً 8.80 فیصد یا 64 ارب روپے کی وصولی میں ناکام رہا، درآمدات میں زبردست کمی اور سیلز ٹیکس کی مقامی وصولی میں خراب کارکردگی اس کی بنیادی وجہ ہے۔
جمعے کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ میں محصولات کی وصولی 727 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 663 ارب روپے رہی۔یہ منفی رجحان ایف بی آر کی فیلڈ فارمیشنز کے لیے مالی سال 2023 کی آخری سہ ماہی میں بڑے خسارے سے نکلنا ایک مشکل کام بنا دے گا۔
یہ بھی پڑھیے
روپے کی بے قدری نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج دنیا کی بدترین مارکیٹ قرار
آئی ایم ایف کے بغیر جینا تھا تو لوگوں پر ٹیکسز کے بوجھ کیوں ڈالے گئے؟ اسحاق ڈار سے سوال
تاہم مارچ کے مجموعے میں گزشتہ سال کے 575 ارب روپے کے مقابلے میں 15.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ اگلے چند دنوں میں حساب کتاب کی تکمیل کے بعد حکومتی خزانے میں مزید کچھ ارب کا اضافہ متوقع ہے ۔
مارچ میں کم وصولی کے نتیجے میں محصولات کی مد میں پہلے نو ماہ کاخسارہ 278 ارب روپے تک پہنچ گیا کیونکہ23-2022 کے پہلے نو مہینوں میں 5.433 کھرب روپے کے ہدف کے مقابلے میں کل وصولی 5.155 کھرب روپے رہی۔ ٹیکس حکام نے جولائی تا مارچ 22-2021 میں جمع کیے گئے 4.385 کھرب روپے سے 17.55 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا۔ایف بی آر کو ریونیو کی وصولی کو حتمی شکل دینے پر مزید چند ارب اضافے کی توقع ہے۔
محصولات میں یہ اضافہ 7.47 کھرب روپے کے اس متوقع ہدف سے بہت کم ہے جس کا حکومت نے مالی سال 23 کے لیےآئی ایم ایف سے وعدہ کررکھا ہے ۔
14 فروری کو ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دی۔ اسی طرح سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ ان دونوں اقدامات سے ساڑھے تین ماہ میں آمدنی کا تخمینہ 115 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ یکم مارچ سے نافذ کیے گئے نئے ٹیکس اقدامات کے نتیجے میں اگلے تین مہینوں میں حکومت کو محصولات کی مد میں 170ارب روپے کی اضافہ آمدن متوقع ہے ۔
اسی دوران سپریم کورٹ نے 7 فروری کو بڑے ٹیکس دہندگان کو اپنے سپر ٹیکس کا 50 فیصد ایف بی آر میں جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔ایک سرکاری ذریعے کے مطابق، ان تمام اقدامات سے ایف بی آر کو مارچ کے لیے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں مدد نہیں ملی۔محصولات میں اضافے کے متعدد اقدامات کےباوجود ٹیکس مشینری کی کارکردگی توقعات سے کم ہے۔
روپے کی قدر میں اب تک کی بلند ترین گراوٹ کے علاوہ تقریباً 30 فیصد افراط زر کا اثر بھی محصولات کی وصولی میں ظاہر نہیں ہورہا۔ٹیکس حکام کے مطابق سب سے زیادہ وصولی انکم ٹیکس کی مد میں کی جاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد مارچ میں سپر ٹیکس کی وصولی ہے۔ تاہم، انکم ٹیکس کی وصولی ابھی بھی مالی سال کے 9 ماہ میں متوقع ہدف سے پیچھے ہے۔
حکام کا خیال تھا کہ تمام محصولات کی مکمل وصولی کی وجہ سے اگلے تین مہینوں میں اس کمی پر قابو پا لیا جائے گا۔ تاہم، ایف بی آر نے انکم ٹیکس ریفنڈز کو روک دیا ہے کیونکہ رواں مالی سال کے 9 ماہ میں تقریباً 14 ارب روپے کے ریفنڈزکیے جاچکے ہیں ۔
سیلز ٹیکس کی وصولی نو ماہ کے لیے متوقع ہدف سے بہت پیچھے ہے۔ تاہم پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں سیلز ٹیکس کی وصول میں معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ غیر معمولی مہنگائی کے باوجود مقامی سیلز ٹیکس کی وصولی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔
مارچ میں کسٹمز کی وصولی میں بھی 38 ارب روپے سے زائد کی کمی دیکھی گئی۔ تاہم سگریٹ، سفری ٹکٹوں اور جوس/مشروبات پر ایکسائز کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافے کی وجہ سے ایکسائز ڈیوٹی کی وصولی میں اضافہ ہوا۔