اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا بوجھ آنے والی حکومت پر ڈال دیا

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات سے انشاء اللہ 3.5  فیصد جی ڈی پی نموحاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس پلان بی ہے، آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پروگرام 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔ انتخابات کے بعد نئی آنے والی حکومت اپنی مرضی سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اقتصادی سروے جاری کرتے ہوئے بتایا کہ شہباز شریف نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، نئے مالی سال کے دوران صنعت کاری کو فروغ دیا جائے گا ، حکومتی اقدامات سے انشاء اللہ 3.5  فیصد جی ڈی پی نموحاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہاہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سیاست کی بجائے ریاست کو ترجیح دی اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے مالی سال کے دوران صنعت کاری کو فروغ دیا جائیگا، زراعت پر خصوصی توجہ دی جائیگی، برآمدات میں آئی ٹی کا شعبہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، محصولات کے نئے ذرائع اور وسائل تلاش کئے جائیں گے۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات سے ان شاء اللہ 3.5 فیصد جی ڈی پی نمو حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے،  حکومت فائیو ایز (ایکسپورٹ، ایکوئٹی، انرجی، امپاورمنٹ اور انوائرمنٹ) کو ترجیح دے رہی ہے، حکومت کی ترجیح ہے کہ کلی معیشت مستحکم ہوں اور نمو کی بنیاد پائیدار ہو، تھری ایز کے بعد اب فائیو ایز پالیسی پر آئندہ کا روڈ میپ بنایا ہے۔

جمعرات کویہاں قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 2022-23 کے اجراء کے موقع پر وفاقی وزیرمنصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال  اور وزیر مملکت ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، گزشتہ ساڑھے 4 برسوں میں دنیا کی 24ویں بڑی معیشت کو 47ویں معیشت بنادیا گیا، 2017-18 میں پاکستان کی گروپ 20 میں شمولیت کی باتیں کی جارہی تھیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ کہ ہماری معیشت نیچی چلی گئی۔

یہ بھی پڑھیے 

اسٹیٹ بینک کے غیرملکی زر مبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے گرگئے

اسٹاک میں بدترین مندی؛ امریکی ڈالر 305 روپے کی سطح پر آگیا

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ملک کو دوبارہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں لانا ایک بڑا چیلنج ہے، اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف پائیدار معاشی ترقی حاصل کرنی ہے بلکہ بیرونی ادائیگیوں کو بھی یقینی بنانا ہے، ان مشکلات کو تمام شراکت داروں کے تعاون سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ ہماری ٹیم نے مسلسل محنت کی اور طویل عرصہ کے بعد حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ نہ صرف کم ہوا ہے بلکہ یہ فاضل ہوگیا۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ پاکستان کی معیشت میں استحکام کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری رہے گا، ہماری معیشت میں استعداد اور جان ہے، ہمیں امیدہے کہ ہم 1999 اور 2013 کی طرح ملک کو معاشی مشکلات سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تمام تکنیکی معاملات مکمل ہیں، پاکستان نے 9ویں جائزہ کے تحت تمام پیشگی اقدامات کرلئے ہیں، ہم اس پوزیشن میں ہے کہ کو ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو مکمل کیا جائے، آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ حکومت کے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے ہم نے مشکل فیصلے کئے جس کی ہم نے سیاسی قیمت بھی ادا کی ہے مگر ہمارے لئے سیاست سے ریاست اہم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بجلی، توانائی اور دیگر شعبوں میں اصلاحات کے دلیرانہ فیصلے کئے مگر اس کے ساتھ ساتھ جامع اور پائیدار معیشت کی طرف ہمیں جانا ہے، اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ 2013 میں ہم نے اسٹاک مارکیٹوں کا انضمام کیا جس سے 2013 سے 2018 کے دوران انڈیکس 19 ہزار پوائنٹس سے بڑھ کر 50 ہزار پوائنٹس سے تجاوز کرگیا، ہماری مارکیٹ کیپٹلائزیشن 100 ارب ڈالر تک بڑھ گئی جو ڈی ویلیو ایشن اور گزشتہ حکومت کی ناقص کارگردگی سے 25 ارب ڈالر تک گر گئی۔

انہوں نے کہاکہ جن مشکل حالات میں ہم نے حکومت سنبھالی تو معیشت کے تمام اشاریے زوال کی طرف جا رہے تھے، حسابات جاریہ کے کھاتوں اور تجارتی خسارہ میں نمایاں اضافہ ہوا تھا، ہم اگر حکومت نہ سنبھالتے تو خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوجاتا کیونکہ گزشتہ حکومت کے آخری سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 6.4 ارب ڈالرکی کمی آئی تھی۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ پراپیگنڈہ پرتوجہ دینے کی بجائے ہمیں اپنی معیشت پر اعتماد کرنا چاہئے، موجودہ حکومت نے معیشت میں زوال کے عمل کو روک دیا ہے اور اب ہمیں اس معیشت کو اٹھان کی طرف لے جانا ہے۔ گزشتہ حکومت جی ڈی پی کی شرح نمو 6 فیصد بتا رہی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ پہلے سال منفی بڑھوتری کے بعد بیس(base)  کو تبدیل کرلیاگیا جس سے اشاریوں پر فرق پڑا۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 2018 میں مالی خسارہ 5.8 فیصد تھا جو گزشتہ حکومت کے دور میں 7.9 فیصد پر پہنچا ، حالانکہ ہماری سابق حکومت نے ضرب عصب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کیلئے مالی وسائل بھی فراہم کئے تھے۔ گزشتہ حکومت نے تجارتی خسارہ بڑھا دیا، پالیسی ریٹ کو 6.1 سے بڑھا کر 14 فیصد پر پہنچا دیاگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت کے دورمیں اوسط ماہانہ گردشی قرضہ 330 ارب روپے تھا، ہمارے سابق حکومت کے دور میں یہ 129 ارب روپے ماہانہ تھا، سابق حکومت نے 2467 ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑا ہے، اسی طرح 2018 میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کا حجم 2018 میں 3.7 فیصد تھا جو پی ٹی آئی حکومت نے 13.9 فیصد کی سطح پر پہنچا دیا، مجموعی طور پر قرضہ کو 25 ہزار ارب روپے سے بڑھا کر 49 ہزار ارب پر پہنچا دیا گیا، سابق حکومت کے دور میں قرضوں میں مجموعی طور پر 97 فیصد اضافہ ہوا، پالیسی ریٹ بڑھانے سے بھی قرضوں میں 7 ہزار ارب کا اضافہ ہوا۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ سابق حکومت نے معیشت کی تابوت میں آخری کیل آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو توڑنے کی صورت ٹھونک کر کیا ، اس اقدام سے بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی ساکھ متاثرہوئی۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ گزشتہ ایک سال میں عالمی سطح پر جی ڈی پی کی شرح میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے، اسی طرح عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح میں 51 فیصد اضافہ ہوا، عالمی تجارت میں تقریباً 5 فیصد کی کمی ہوئی،  جس کے اثرات سے پاکستان بھی متاثر ہوا ہے، اس کے ساتھ گزشتہ سال آنیوالے تاریخ کے بدترین سیلاب سے پاکستان کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کیلئے کام کررہی ہے، ابتدائی طور پر 4 برسوں میں 15 ارب ڈالر کا تخمینہ ہے جس میں آدھا حصہ پاکستان کی حکومت اور باقی کے فنڈز ممالک اور دوطرفہ اور کثیرالجہتی شراکت دار فراہم کریں گے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت نے جاری مالی سال میں کفایت شعاری کے اقدامات کئے، غیرہدفی زرتلافیوں کو ختم کیا گیا، تمام بیرونی واجبات اور ذمہ داریوں کی وقت پر ادائیگی کو یقینی بنایاگیا، درآمدات میں اشیاء خوراک اور ادوایات کو ترجیح دی گئی، اس کے ساتھ ساتھ برآمدات پر بھی بھرپور توجہ دی گئی، الحمدللہ لیٹر آف کریڈٹ کے 90 فیصد مسائل حل ہو چکے ہیں۔ زری پالیسی کو سخت رکھا گیا ہے مگر افراط زرکے تناظرمیں ایسا کرنا ضروری تھا، میں ہمیشہ سے ڈی ویلیوایشن کے خلاف ہوں کیونکہ روپیہ کی قدرکم ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ میڈیا کوعوام میں آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اورنہ ہی غیرضروری طورپرڈالر اورسونا خریدنا چاہئے، بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا روپیہ انڈرویلیو ہے اوراس وقت بھی ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کی حقیقی قدر 244  روپے کے لگ بھگ ہے، 40 سے لیکر45 روپے تک کا گیپ مصنوعی ہے، ہمیں اپنے ملک کے مفاد کواجاگرکرنے کی ضرورت ہے، ان مشکل حالات کے باوجود ہم نے کمرشل بینکوں کے 5.5 ارب ڈالر اوربانڈز کی میچیورٹی کی صورت میں ایک ارب ڈالرکی ادائیگی کی ہے، دسمبرکی سہ ماہی میں پاکستان کے قرضوں میں 4 ملین ڈالر کے قریب کمی ہوئی تھی، ہم نے تمام بیرونی ادائیگیوں کو یقینی بنایا ہے اورملک ڈیفالٹ نہیں ہوگا۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ سماجی تحفظ اورمعاشرے کے معاشی طورپرکمزورطبقات کوریلیف فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے، حکومت نے بی آئی ایس پی کا بجٹ 400 ارب روپے تک بڑھا دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مستفید ہونے والوں کے مشاہیرہ میں اضافہ کردیاگیا۔ رمضان پیکج کے تحت 75 ارب روپے کا ریلیف فراہم کیاگیا، کسان پیکج کے تحت 2 ہزار ارب روپے کا اعلان کیاگیا جس میں سے 1750 ارب روپے جاری ہوچکے ہیں، اس سے ملک کی زرعی پیداوارپرمثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اسلامی فنانسنگ اور بینکاری کے فروغ میں بھی سنجیدہ ہے، اسلامی فنانسنگ کے تحت ایک اورتین سالہ مدت کے اجارہ جاری کئے گئے، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں سٹیٹ بینک اورنیشنل بینک کی اپیلیں واپس لی گئی، اس وقت ملک میں اسلامی بینکاری کا حجم 21 فیصد ہوچکا ہے جس میں آنیوالے مہینوں اورسالوں میں مزیداضافہ ہوگا۔ ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر تجارت کا آغاز کیاگیا، اس سے تجارت میں اضافہ ہوگا، مزیدممالک کے ساتھ بھی اس طرح کے معاہدے ہوں گے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ تمام ترمشکلات اورچیلنجوں کے باوجودمعاشی اشاریوں میں بہتری آرہی ہے، جاری مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح نمو0.29 فیصد ہے جبکہ نے مالی سال کیلئے یہ ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے، جاری مالی سال میں زراعت اور خدمات کے شعبہ جات میں بہتری آئی ہے۔جولائی سے مئی تک  صارفین کیلئے قیمتوں کا اشاریہ 29.2 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ کورانفلیشن کی شرح شہری علاقوں میں 16 فیصد اور دیہی علاقوں میں 20 فیصد ہے جس کا اوسط 18 فیصد بنتا ہے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ ایف  بی آر نے جاری مالی سال کے دوران اچھی کارگردگی دکھائی ہے، درآمدات میں کمی کے باوجود جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں ایف  بی آر نے 6210 ارب روپے کے محاصل اکھٹا کئے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 16 فیصد زیادہ ہے، نئے مالی سال میں ایف بی آر میں اصلاحات اوربہتری کا عمل جاری رہے گا، ٹیکس کی بنیادمیں وسعت لائی جائیگی، 31مارچ تک ایف بی آر نے 7لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کا ہدف مقررکیاتھا جو9 لاکھ 12ہزار 392 تک پہنچ گیاہے، پرائمری بیلنس میں بھی بہتری آئی ہے، حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں 76 فیصدتک بہتری آئی، گزشتہ سال حسابات جاریہ کے کھاتوں کاخسارہ 13.7 ارب ڈالرتھا جو جاری مالی سال کے پہلے 11ماہ میں  3.2 ارب ڈالرکی سطح پرآگیاہے، مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں درآمدات 51.2 ارب ڈالرریکارڈکی گئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 72.3 ارب ڈالرکے مقابلہ میں 29.2 فیصدکم ہے، برآمدات اورترسیلات زرمیں کمی آئی ہے۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ اس حکومت نے وہ  سخت اورمشکل فیصلے کئے ہیں جو ریاست کیلئے ضروری تھے،وزیراعظم محمدشہباز شریف کو ہمیشہ تاریخ میں یادرکھا جائیگا جنہوں نے سیاست کی بجائے ریاست کوترجیح دی اورملک کودیوالیہ ہونے سے بچایا۔

وزیرخزانہ نے کہاکہ نئے مالی سال کے دوران صنعت کاری کو فروغ دیا جائیگا، زراعت پرخصوصی توجہ دی جائیگی، برآمدات میں آئی ٹی کا شعبہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس شعبہ میں برآمدات کو 4 ارب ڈالرکی سطح تک لیجایا جائے، محصولات کے نئے ذرائع اوروسائل تلاش کئے جائیں گے، اس کے ساتھ ساتھ 1100 ارب روپے کے لگ بھگ ترقیاتی بجٹ بھی دیا جارہاہے،ماحول دوست توانائی بھی ہماری ترجیح ہے، 2030 تک مجموعی توانائی میں گرین انرجی کاحصہ 30 فیصد تک لے جانے کاہدف ہے اس سے توانائی کے بل میں 10 سے لیکر15 فیصد تک کی بچت ہوگی۔  ان اقدامات سے ان شاء اللہ 3.5  فیصد جی ڈی پی نموحاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ سرکاری ملازمین اورپنشنرز کی تنخواہوں میں گنجائش کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ میثاق معیشت پر بات چیت انتخابات کے بعد ہو گی۔

متعلقہ تحاریر