مرتضیٰ سید نے معیشت کو گرداب سے نکالنے کیلیے منموہن سنگھ ماڈل پیش کردیا

پاکستانی منصوبہ ساز اپنے مسائل کی صحیح تشخیص کریں، معاشی ماہرین کو اعتماد اور سیاسی تحفظ فراہم کریں، مسائل کے فوری حل کا دکھاوا بند کردیں، دنیا کے ساتھ مربوط ہوں اورعوم کو ایک پراُمیدمگر ایماندار پیغام کے ساتھ تحریک دلائیں،مرتضیٰ سید

سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید نے معیشت کوگرداب سے  نکالنے کیلیے بھارت کے سابق وزیرخزانہ اور سابق وزیراعظم  ڈاکٹر من موہن سنگھ کے 30 سال پرانے معاشی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے انہیں بطور نمونہ پیش کردیا۔

مرتضیٰ سید نے اپنےطویل ٹوئٹر تھریڈ  میں بھارتی معیشت کو دیوالیہ پن   کے  دہانے سےنکال کر دنیا کی بڑی معیشتوں  کی صف میں کھڑا کرنے کا سہرا ڈاکٹر من موہن سنگھ  کے سرباندھ دیا  ۔

یہ بھی پڑھیے

کاروباری اور تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس میں 2.5 فیصد اضافہ

شہباز شریف حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے

 

سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید نےاپنے ٹوئٹ میں لکھاکہ”30 سال پہلے انڈیا بھی دیوالیہ پن کے دہانے پر تھا۔اس کے جواب میں اس کے وزیرخزانہ  ایسی بجٹ تقریر کی جسے  نسلوں تک یاد رکھا  جائے گا، اس تقریر نے انڈیا کوہمیشہ کیلیے بدل کررکھ دیا۔یہ اس بجٹ سے زیادہ مختلف نہیں ہو سکتا جو ہم نے حال ہی میں پاکستان میں سنا ہے“۔

انہوں نےکہاکہ”  سب سے پہلےبھارت کے منکسرالمزاج اور ماہر معاشیات   وزیرخزانہ منموہن سنگھ  نے  اس بات پر غور نہیں کیا کہ  ان کے پیش روؤں نے کیا کیا تھا یا عالمی سازشیں کیا تھیں،انہوں نے تسلیم کیا کہ بھارت اپنی تاریخ کے بدترین بحران کاشکار ہے اوریہ بحران  اس کا اپنا پیدا کردہ ہے “۔

مرتضیٰ سید نے لکھا کہ” انڈیا قرضوں اور ادھار لیے ہوئے وقت  پر جی رہا ہے،اسکے  پاس  اپنی بقا کیلیے ضائع کرنے کیلیے وقت اور کوئی آسان راستہ نہیں بچا تھا  لیکن بھارت مشکل قدم اٹھاکرراکھ سے اٹھ سکتا ہے  ، بھارت کا ظہور  ایک خیال تھا جس کا وقت آ گیا تھا“۔

انہوں نےمزید کہا کہ”من موہن سنگھ نے یہ ظاہر کرنے کے بجائے کہ یہ بحران عارضی ہےاور زندگی دوبارہ تیزی سے کسی سنہری دور کی طرف واپس جاسکتی ہے، انہوں نے واضح کردیا کہ یہ بحران مقامی ہےجسے حل کرنے کیلیے کم ازکم 3 سال مستقل مزاجی سے اقدامات  کرناہوں گے لیکن  بالآخر اس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے“۔

مرتضیٰ سید نےمن موہن سنگھ کی تعریف میں  مزیدلکھاکہ  ”تیسرے یہ کہ وہ  بھارت  کی معاشی نمو کے طریقہ کار کی  مہلک ترین غلطیوں کے حوالے سے سفاکیت کی حد تک ایماندار تھے،پاکستان کی موجودہ صورتحال کی طرح انڈیا بھی بڑے  مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خساروں  کا شکار تھا،جو اسکے اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اضافہ اور معیشت کو مفلوج کررہے تھے،یہ کھیل اب ختم ہوچکا تھا “۔

سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید لکھاکہ”ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ایک مضبوط استحکامی منصوبہ پیش کیا جو بحران سے فوری  نمٹنے کے لیے ضروری تھا، جس کا دارومدار ٹیکس مراعات، غیر ہدف شدہ برآمدی سبسڈیز، بے معنی وزارتوں اور خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں پر فضول خرچی میں کمی لانے اور   روپے کو مزید لچکدار بنانے پرتھا “۔

 مرتضیٰ سید نے کہاکہ”انہوں نے اس استحکام کےعمل سے معیشت کوتباہی اور غریب کو نقصان سے بچانےکیلیے غیر ضروری حکومت  کنٹرول (بدنام زمانہ لائسنس راج) ، تجارتی پابندیوں ، عوامی اجاراداری ، نئے اداروں کے قیام اور غیرملکی سرمایہ کاری  کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے نجی شعبے کو آزاد کیا“۔

انہوں نےکہا کہ” پاکستان کو بھی ملکی اسٹیک ہولڈرز سے انہی ناگزیر اصلاحات کی حمایت  حاصل کرنے کے لیے ایسی ہوشیاری کی ضرورت ہے“۔

سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید کہاکہ”من موہن سنگھ نے اصلاحات کو بے ترتیبی سے نافذ نہیں کیا بلکہ ہم آہنگی اور ترتیب پر پوری توجہ دی تاکہ ان کے مہنگائی یا درآمدات میں اضافے جیسےناپسندیدہ نتائج سے بچا جاسکے“۔

مرتضیٰ سید  نے مزید کہا کہ” من موہن سنگھ کی بجٹ تقریر نے اصلاحات کے  حیرت انگیز دور کا آغاز کیا گوکہ ان کی حکومت اگلا الیکشن  ہار گئی لیکن اس کی میراث یقینی تھی،ا س نے ہندوستان کے معجزے  کی بنیاد رکھی  اور دنیا کے ساتھ ڈی ریگولیشن اور انضمام کے لیے اس کی منحرف جمہوریت کے اندر ایک اتفاق رائے پیدا کیا “۔

سابق ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے مزید کہا کہ اس  سب میں پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے کچھ اسباق ہیں، سچ بولیں، اپنے مسائل کی صحیح تشخیص کریں، معاشی ماہرین پر بھروسہ کریں، انہیں سیاسی تحفظ فراہم کریں، یہ دکھاوا بند کریں کہ فوری حل موجود ہیں، دنیا کے ساتھ مربوط ہوں اور اپنے لوگوں کو ایک پر اُمیدمگر ایماندار پیغام کے ساتھ تحریک دیں،وقت  کا یہی تقاضا ہے“۔

متعلقہ تحاریر