پیٹرول بحران کا ذمہ دار کون؟ تہلکہ خیز انکشافات

انکوائری رپورٹ کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیز من مانے منافعے کما کر پانچوں انگلیاں گھی میں ڈالے بیٹھی رہیں اور اوگرا خاموش تماشائی بنا رہا

گندا ہے پر دھندا ہے یہ۔۔۔ دنیا بھر میں پیٹرول کی صنعت کو بلیک گولڈ یا کالا سونا قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی لابیز اتنی مضبوط اور طاقت ور ہوتی ہیں کہ حکومتیں بنانے، قانون سازی کرانے اور بجٹ میں کی تیاری تک میں اثر انداز ہوتی ہیں۔

جب  یہ طاقتیں بین الاقوامی سطح پر اتنی بااثر ہیں تو پاکستان میں بھی ان کی من مانی، اسٹاک برقرار رکھنے، ذخیرہ اندوزی کرنے اور دیگر گورکھ  دھندے ہیں۔ جن کی قلعی وزیر اعظم عمران خان کے قائم کیے جانے والے خصوصی انکوائری کمیشن نے کھول دی ہے۔ انکوائری کمیشن نے معاون خصوصی ندیم بابر اورسیکرٹری پٹرولیم کی کارگردی پر کڑے سوالات کیے ہیں۔

پیٹرولیم مصنوعات

پٹرول بحران کا ذمہ دار کون؟

ملک میں پیٹرول کے حالیہ بحران پر قائم انکوائری کمیشن نے بحران کی ذمہ داری اوگرا، پیٹرولیم ڈویژن اور آئل کمپنیوں پر ڈال دی ہے۔ کمیشن نے اوگرا کو سفید ہاتھی قراردیا اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اوگرا کو تحلیل کرنے کی سفارش کردی  ہے۔

انکوائری رپورٹ میں پیٹرولیم ڈویژن کی کہانی بے حسی نااہلی اور بدعنوانی سے منسلک ہے۔کمیشن  نے سیکریٹری پیٹرولیم اسد احیاءالدین کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی ہے۔ انکوائری کمیشن نے پیٹرول بحران پر سیکریٹری پیٹرولیم اور ڈی جی آئل کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کی ہے۔

نیوز 360 کو موصول ہونے والی انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے تک کمپنیز نے تیل کی ذخیرہ اندوزی کی اور سپلائی کم کر دی۔

یہ بھی پڑھیے

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا تہذیب بیکری اور میٹرو شوز پر جرمانہ

رپورٹ کے مطابق  رواں سال مارچ میں تیل درآمد پر پابندی عائد کرنے سے پیٹرول بحران کی ابتدا ہوئی۔ سیکریٹری پیٹرولیم سمیت اعلی حکام کی کارگردی انتہائی ناقص رہی۔ پیٹرولیم ڈویژن نے تیل کی درآمد پر پابندی عائد کی جبکہ آئل کمپنیز کو مقامی ریفائنریز سے بھی تیل لینے کی ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔ اور اوگرا نے خلاف قانون اور بے ضابطگیوں پر مبنی اقدامات کئے۔

رپورٹ کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیز من مانے منافعے کما کر پانچوں انگلیاں گھی میں ڈالے بیٹھی رہیں اور اوگرا خاموش تماشائی بنا رہا۔

اربوں روپے کا منافع کس نے کمایا؟

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 23 روپے 99 پیسے فی لیٹر پٹرول پر 30 روپے لیوی اور10روپے53 پیسے فی لیٹر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا۔ یوں24 روپے فی لیٹر والا پٹرول عوام کو 74روپے میں فروخت کیا جاتا رہا۔

ملک کی90 فیصد آئل مارکیٹنگ کمپنیز نے کم از کم20 دن کا اسٹاک برقرار نہیں رکھا۔ دور حاضر میں سستے ترین پیٹرول اور ڈیزل کا فائدہ پاکستانی عوام کو نہ مل سکا۔

رپورٹ کے مطابق تیل کی درآمد اور اسٹاک سے متعلق غلط بیانی کی گئی اور کم سے کم ریٹ پر پرانے اسٹاک کو چھپایا گیا۔ ذخیرہ اندوزی کی گئی اور بعد میں دام بڑھنے پر اسے مہنگا فروخت کرکے 9 آئل مارکیٹنگ کمپنیز نے کم از کم5.5 ارب روپے کا منافع جیب میں ڈالا جس پر عوام کا حق تھا۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیز نے گہرے سمندر میں کارگو روک پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کی۔

ویٹنری ڈاکٹر کو ڈائریکٹر جنرل آئل لگانے کا نقصان کیا ہوا؟

انکوائری رپورٹ ویٹرنری ڈاکٹر شفیع آفریدی کو وزارت میں ڈی جی آئل لگانے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ شفیع آفریدی کے پاس آئل سیکٹر میں کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ رپورٹ میں استفسار کیا گیا ہے کہ بتایا جائے کہ شفیع آفریدی کے خلاف بے ضابطہ تقرری کیوں کی گئی؟

شفیع آفریدی ریسرچ آفیسر عمران ابڑو کی توسیع کے لئے خلاف ضابطہ سفارش بھی کرتے رہے۔ شفیع آفریدی کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے وزارت پٹرولیم اور اس کے ذیلی اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان پیدا ہوا۔ جس کا منافع خوروں نے جی بھر کر فائدہ اٹھایا۔ متعلقہ اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے کا کوئی نظام نہیں تھا۔

20 دن کا ذخیرہ رکھنے کی بنیادی شرط پر کس نے چپ سادھی؟

حکومت کی تیل کی درآمد پر پابندی کے باوجود بعض کمپنیز نے تیل درآمد کیا اورذخیرہ اندوزی کی۔ 26 جون تک پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے تک کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کی اور عوام کو ریلیف دینے سے محروم رکھا۔ دستاویز کے مطابق 20 روز تک تیل ذخیرہ نہ کرنے کی مجرمانہ غفلت کو نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔

کمپنیز سے 20 روز تک تیل ذخیرہ نہ کروانا اوگرا کی ناکامی ہے۔انکوائری کمیشن نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین 15 روز کی بجائے ماہانہ کرنے اور پٹرولیم ڈویژن میں مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔

مانیٹرنگ سیل کمپنیوں سے روزانہ کی بنیاد پر ماہانہ ذخیرے سے متعلق اعدادوشمار حاصل کرے۔ رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیشن نے تیل وگیس سیکٹر کے نگراں ادارے اوگرا کو سفید ہاتھی قراردےدیا ہے اور کہا ہے کہ پیٹرول بحران میں اوگرا نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔

رپورٹ کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں جبکہ پاکستان میں تیل کا بحران پیدا ہوا۔ اوگرا صارفین کے ساتھ ہونے والی ظلم اور زیادتی پر چپ سادھے رہا۔

یہ بھی پڑھیے

ایف بی آر کو ٹیکس فائلرز میں کمی کا سامنا

متعلقہ تحاریر