ڈھائی سال میں 6 مرتبہ بجلی کے نرخ کب کب کتنے کتنے بڑھائے گئے؟
موجودہ حکومت بجلی صارفین پر پہلے ہی 450 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال چکی ہے اور مزید 200 کا بوجھ پڑنے سے عوام پر مجموعی بوجھ کا حجم 650 سے 700 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔
سال 2021 کا سورج آ غاز سے عوام کے لیے مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ پہلے یکم جنوری اور پھر 16 جنوری کو پٹرول مہنگا ہوا تو جنوری کے تیسرے ہفتے میں بجلی کے نرخ ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ یعنی 15 فی صد بڑھانے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اس کا اطلاق ملک کے تمام صارفین پر ہوگا اور عوام کو بجلی کے ریٹ میں مزید کم از کم 200 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے۔
موجودہ حکومت بجلی صارفین پر پہلے ہی 450 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال چکی ہے اور مزید 200 کا بوجھ پڑنے سے عوام پر مجموعی بوجھ کا حجم 650 سے 700 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ اضافے کے بعد بجلی کا بنیادی ٹیرف 15 روپے 30 پیسے فی یونٹ ہوجائے گا جو تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے وقت یعنی اگست 2018 میں ساڑھے نو روپے تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت اس سے پہلے 2020 تک اس بنیادی ٹیرف 13 روپے 35 پیسے فی یونٹ تک پہنچا چکی تھی اور مجموعی طور اگست سے دسمبر 2020 تک پہلے ہی بجلی 3 روپے 85 پیسے فی یونٹ مہنگی کرچکی تھی۔ موجودہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں 5 بار پہلے ہی اضافہ کرچکی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے کب کب بجلی مہنگی کی؟
تحریک انصاف کی حکومت اگست 2018 میں اقتدار میں آئی اور اپنے دور حکومت کے پانچویں مہینے میں پہلی بار بجلی یکم جنوری 2019 کو ایک روپے 27 پیسے فی یونٹ مہنگی کی تھی۔ اس حکومت نے دوسری بار یکم جولائی 2019 کو بجلی ایک روپے 49 پیسے فی یونٹ مہنگی کی تھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے تیسری بار اکتوبر 2019 میں بجلی 53 پیسے فی یونٹ مہنگی کی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 29 نومبر 2019 کو چوتھی بار بجلی 30 پیسے فی یونٹ مہنگی کی۔ پانچویں بارمارچ 2020 میں بجلی 26 پیسے فی یونٹ مہنگی کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
عمران خان توانائی کے گردشی قرضے پر افسردہ کیوں؟
حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان تنازع کیا ہے؟
حکومت نے بجلی بڑھانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے نیوز 360 کو بتایا کہ گزشتہ حکومت نے بجلی کے ریٹ بروقت نہ بڑھائے اور مسلسل سرکلر ڈیٹ بڑھنے کی وجہ سے بجلی کے ریٹ بڑھانا پڑے۔ ان کا کہنا تھاکہ ’حکومت نے بجلی کے ریٹ بڑھانے کا فیصلہ گزشتہ سال ہی کیا تھا لیکن کورونا کے وجہ سے بجلی کے ریٹ میں ریلیف دینا پڑا اور اب چونکہ صنعت کا پہیہ چل پڑا ہے تو اب یہ ریٹ بڑھاکر توانائی کے سرکلر ڈیٹ کی بڑھتی ہوئی رفتار کو قابو کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں تابش گوہر نے کہا کہ بجلی کے تقسیم کار کمپنیز کے نقصانات کو بھی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کے 4 بجلی کے تقسیم کار ادارے بجلی کے نقصانات کا 85 فی صد حصہ ہیں۔ ان میں حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو)، سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی (سیپکو)، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) اور پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) شامل ہیں۔
نقصان میں چلنے والی بجلی کی تقسیم کار کمپنیز صوبوں کو دینے پرغور
وزیر اعظم کے معاون خصوصی تابش گوہر نے نیوز 360 کو ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’وفاقی حکومت بجلی کے ترسیلی نقصانات سے خاصی تنگ ہے اور حکومت بجلی کے مسلسل سے نقصانات میں کمی کے لیے مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے۔ حکومت اس تجویز پر بھی غور کررہی ہے کہ بجلی کی ایسی تمام تقسیم کار کمپنیز جو زیادہ نقصانات کا سبب ہیں وہ صوبوں کو دے دی جائیں اور ان کے نقصانات صوبائی بجٹ سے پورے کیے جائیں تاکہ وہ وفاقی بجٹ پر مزید بوجھ نہ بنیں۔‘
بجلی کے ریٹ بڑھانے میں آئی ایم ایف کا کردار کیا ہے؟
وزارت خزانہ کے ذرائع نے نیورز 360 کو بتایا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کے اہداف اور بجلی کے نقصانات کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے کئی اہداف پر پیش رفت نہیں کی ہے اسی لیے اُس کا پروگرام عملی طور پر معطل ہے۔ اب پاکستان کو آئی ایم ایف سے مزید قرضہ کی قسط کی ضرورت ہے اسی لیے آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے اور سرد مہری کا شکار قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجلی کے نقصانات کم کیے جائیں اور اسی لیے ریٹ میں اضافہ کرکے بجلی کے شعبے میں وصولیاں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بجلی کے بڑھتے نرخ، صنعت، کاروبار اور برآمدات کو متاثر کرسکتے ہیں، صنعت کار مرزا عبدالرحمان
ملک کے معروف صنعت کار اور وفاق ہائے ایوان صنعت و تجارت کے کوآرڈینیٹر مرزا عبدالرحمان نے نیوز 360 کو بتایا کہ کے ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ زنگ لگا صنعتی پہیہ رواں ہونا شروع ہوا ہے اور ایسے میں بجلی کے ریٹ بڑھانے سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی۔ ساتھ ہی دکانوں کے بجلی کے ریٹ بڑھنے سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا اور یہ مہنگائی میں اضافہ کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ چند ماہ سے بڑے صنعتی یونٹ یعنی لارج مینوفیچرنگ یونٹس ایل ایس ایم کی شرح نمو کئی ماہ کے بعد 7 فی صد کو پہنچی ہے۔ اس طرح کے حکومتی فیصلے اس نمو کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ بجلی مہنگی ہونے سے برآمدی شعبے بھی مشکلات سے دوچار ہوجائے گا اور برآمدات میں اضافے کا جو گراف ہے بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ صنعتی اور کمرشل صارفین کے لیے بجلی کے نرخ میں سیلز ٹیکس شامل ہوگا، پھر ترسیلی نقصانات، ایڈوانس انکم ٹیکس اور دیگر سرچارج بھی شامل کیے جائیں تو یہ ریٹ مزید بڑھ جائےگا۔