کیا منی بجٹ آئے گا یا ترقیاتی بجٹ پر چھری چلے گی؟

حکومت کا سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں  25 فی صد ایڈہاک ریلیف کا فیصلہ بجٹ پر 52 ارب روپے کا نیا بوجھ ڈالے گا اور آئی ایم ایف کو کیسے رام کیا جائے گا؟

کیا منی بجٹ آئے گا یا ترقیاتی بجٹ پر چھری چلے گی؟ یہ سوال آج کل زور و شور سے کیا جا رہا ہے کیونکہ وفاقی حکومت کے خلاف سرکاری ملازمین کی 6 ماہ کی جدوجہد رنگ لے آئی ہے اور اُن کی تنخواہیں بڑھانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

ملک کی 73 سال کی تاریخ میں سرکاری ملازمین کی تن خواہوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ وفاقی  حکومت نے کورونا کی وجہ سے اخراجات کم کرنے اور سادگی اپنانے کا اعلان کرتے ہوئے تنخواہیں منجمند رکھیں تھیں۔

سرکاری ملازمین حکومتی کے اس بجٹ فیصلے پر نالاں تھے اور مسلسل تنخواہیں بڑھانے کے لیے علامتی احتجاج کر رہے تھے۔ فروری کی  10 اور  11 تاریخ کو سرکاری ملازمین کا احتجاج شدت اختیار کرگیا۔ آنسو گیس اور شیلنگ نے اسلام آباد کی فضا آلودہ کردی تھی۔

شاہراہ دستور اور ڈی چوک میدان جنگ بنا رہا، موٹروے ایم ون سمیت اسلام آباد ایئرپورٹ جانے والے تمام راستے بند رہے۔ لگ بھگ  6 فلائٹس منسوخ کرنی پڑیں۔ حکومت نے بالاآخر ملازمین کے ڈو مور کے مطالبہ کو مانتے ہوئے ایک گریڈ سے 16 کی بجائے گریڈ ایک سے  19 تک تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کی منظوری دے دی۔

اس سلسلے میں معاہدہ طے پاگیا ہے اور اب یہ ایڈہاک ریلیف سال  2017 کی بنیادی تنخواہ پر دیا جائے گا۔ اسے یکم مارچ 2021 سے نافذ کیا جائے گا اور پھر  یکم جولائی  2021 کو بجٹ میں تنخواہ کا حصہ بنادیا جائے گا۔ اس کا اطلاق صرف سیکریٹریٹ ملازمین سمیت ان ملازمین پر ہوگا جو اضافی الاؤنسز وصول نہیں کرتے۔ یعنی سپریم کورٹ، نیب، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، پارلیمنٹ، ایف آئی اے اور دیگر اضافی الاؤنسز دینے والے اداروں کے ملازمین اس سے مستفید نہیں ہوسکیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بغیر اے ٹی ایم خدمات پر رقم کی وصولی

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کی  52 ارب روپے کی رقم کہاں سے آئے گی اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف کو کیسے رام کیا جائے گا؟

وزارت خزانہ کے حکام نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حالیہ اضافہ بجٹ پر لگ بھگ  52 ارب روپے کا بوجھ ڈالے گا۔ اسی اضافے پر آئی ایم ایف کو بھی تحفظات تھے اور اسی لیے اس معاہدے کو جلد بازی میں یا دباؤ میں آکر نہیں کیا گیا۔ حکومت نے اس  سلسلے میں آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے 2 تجاویز دیں ہیں۔

پہلی تجویز یہ ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں ٹیکسز میں ردوبدل کرکے کچھ مراعات محدود کرنے پر غور کیا جائے۔ ساتھ ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کارپوریٹ ٹیکسز میں بھی اضافے کی تجویز تیار کر رہا ہے۔

دوسری تجویز یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ترقیاتی بجٹ پر چھری چلائی جائے اور ترقیاتی  بجٹ کی رفتار تیز کرکے یہ  52 ارب روپے کے فنڈز میں سے لگ بھگ  20 سے  25 ارب روپے حاصل کرلیے جائیں۔

وفاق حکومت کو ہر حال میں آئی ایم ایف کو راضی کرنا پڑے گا اور اسے ایک سنہرا رخ دکھاکر منانا پڑے گا۔ ادھر بعض ماہرین معاشیات کا یہ بھی خیال ہے کہ  52 ارب روپے کا یہ ریلیف مہنگائی میں  اضافے کرے گا کیونکہ معیشت میں52 ارب روپے سے قوت خرید بہتر ہوگی اور طلب میں اضافہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنے گا۔

تاہم اس اضافے کا ایک اچھا پہلو یہ بھی ہے کہ اس 52 ارب روپے میں سے کم از کم  2.5 ارب روپے مختلف ٹیکسز کی مد میں واپس سرکار کے خزانہ میں آجائیں گے اور ٹیکس آمدن میں معمولی سا اضافہ ہوگا۔

سرکاری ملازمین احتجاج

حکومت کی حالیہ فراخ دلی سے کسے فائدہ ہوگا؟

وفاق حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 25 فی صد کا حالیہ اضافہ گریڈ 1تا گریڈ 16تک کے 9 لاکھ 98 ہزار ملازمین، اور گریڈ 17سے گریڈ 19 تک کے 25 ہزار سے زیادہ افسران  کو پہنچنے کا امکان ہے۔ ان میں چند سو افسران اور ملازمین  کو یہ ریلیف نہیں ملے گا۔ وہ ایسے افسران اور ملازمین ہیں جو مراعات یافتہ اور اضافی الاؤنسز دینے والے دفاتر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق   وفاقی حکومت کے پاس گریڈ 19 کے 3006 افسران، گریڈ 18 کے 7406افسران، گریڈ 17 کے 14,800افسران، گریڈ16 کے34,263 ملازمین، گریڈ 15 کے 4322 افسران، گریڈ 14 کے 20,249ملازمین،گریڈ 13 کے 3016 ملازمین، گریڈ 12 کے 4292 ملازمین، گریڈ 11 کے 4292 ملازمین،گریڈ 10 کے3859 ملازمین، گریڈ 9 کے 34,210 ملازمین ،گریڈ 8 کے 14,373 افسران، گریڈ  7کے 53,479 ملازمین،گریڈ 6 کے 68,621 ملازمین،گریڈ 5 کے  1,23,617ملازمین، گریڈ 4 کے 22,061 ملازمین،گریڈ3 کے 11,561 ملازمین،گریڈ 2 کے50,202 ملازمین، اور گریڈ 1 کے 72,981 ملازمین  موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر حکومتی فراخ دلی سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

اِن حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشیات کے ماہرین سوال کر رہے ہیں کہ کیا منی بجٹ آئے گا یا ترقیاتی بجٹ پر چھری چلے گی؟

متعلقہ تحاریر