آئی پی پیز چلیں تو فائدہ نا چلیں تو چاندی
پیداواری لاگت بڑھنے اور نقصانات اور اخراجات بڑھنے کی سزا بھی حکومت پاکستان کے گلے میں ڈالی جاتی رہی۔
پاکستان میں اندھیرے کو دور کرنے والے انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) چلتی ہیں تو اُنہیں فائدہ ہوتا ہے اور اگر نہیں چلتیں تو اُن کی چاندی ہوتی ہے۔ مارچ 2020 میں آئی پی پیز سے متعلق کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کا مقصد آئی پی پیز کے منصوبوں کی لاگت کا جائزہ لینا اور ان آئی پی پیز کے بین الاقوامی معیار کو جانچنا تھا۔
ان کی صلاحیتوں کے حساب سے کتنی ادائیگی کی گئی اور انہیں جو خاص رعایات دی گئیں ان کا درست استعمال بھی ہوا یا نہیں۔ اس سلسلے میں نیوز 360 کو ملنے والی رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز کو خصوصی رعایت دی گئی اور ان پر 4 فیصد انکم ٹیکس بھی نہیں لگایا گیا۔ اس اقدام سے 40 سے 50 ملین ڈالرز جمع ہوتے رہے اور یہ رقم مسلسل جمع ہونے کے بعد یہ اندازہ ہے کہ اس مد میں 40 سے 60 کروڑ ڈالرز کی رقم کا ٹیکس ریلیف دیا گیا یا بچایا گیا۔
سال 1994 کی آئی پی پیز کی پالیسی میں یہ سہولت بھی دی گئی کہ اگر ان بجلی گھروں میں ایندھن کا استعمال مقررہ مقدار سے کم استعمال ہوا اور اس کی صلاحیت کم ہوئی تو اس کے نقصان کو حکومت پاکستان کے کھاتے میں نہیں ڈالا جائے گا۔
ایندھن کا ضیاع اور پیداواری صلاحیتوں میں کمی کا نقصان عوام پر
آئی پی پیز کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے کے تحت آئی پی پیز کی پیداواری صلاحیت اور ایندھن کے مناسب استعمال کے تحت قیمت کا تعین ہونا ہوتا ہے۔ 1994 کی آئی پی پیز کی پالیسی کے تحت 2 ہزار 843 روپے فی ٹن ایندھین کی بنیادی قیمت طے کی گئی تھی، جسے 2002 کی پالیسی کے تحت 22 ہزار415 روپے فی ٹن کیا گیا۔ اس وقت یہ قیمت 70 ہزار روپے فی ٹن ہے۔
یہ بھی پڑھیے
حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان تنازع کیا ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آئی پی پیز بند ہیں اور یہ واضح ہے کہ 70 ہزار روپے فی ٹن والا ایندھن استعمال نہیں ہو رہا تو حکومت پاکستان کے کھاتے میں یہی 70 ہزار روپے ٹن والا ایندھن کیوں ڈالا جاتا رہا ہے؟ 20 سال سے یہ سلسلہ جاری رہا اور اس طرح اس مد میں لگ بھگ 20 سے 25 کروڑ ڈالرز ادا کیے گئے۔
ضابطہ اور میرٹ کے خلاف خاص رعایات کسے ملتی رہیں؟
اس سلسلے میں قائم کمیٹی نے حکومت پاکستان کی طے شدہ پالیسی کے تحت دی جانے والی خاص رعایات، ٹیکس چھوٹ، بجلی گھر نہ چلنے کی صورت میں خصوصی تعاون اور سپورٹ، کیسے کیسے اور کیوں کیوں دی گئیں اور ان کا کتنا درست استعمال ہوا اور کیا اس سلسلے میں میرٹ کی دھجیاں تار تار تو نہیں کی گئیں؟ اس طرف اس کمیٹی نے کوئی دھیان نہیں دیا۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ لالپیر پاک جین کو خلاف ضابطہ اور میرٹ کے خلاف خاص رعایات دی گئیں۔ ترجیحی بنیادوں پر ادائیگیاں کی گئیں۔ ایسے میں ٹرم آف ریفرنس کا بھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ 1994 کی پالیسی کے تحت 6 ہزار میگا واٹ کے بجلی گھر لگائے گئے اور ان میں سے 2 سے 3 ایسے بھی تھے جو 2 سے 3 سال میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر منافع میں آگئے۔ کمیٹی کو اس سلسلے میں مکمل چھان بین کرنی چاہیے تھی۔
ٹیکس کی چھوٹ سے 40 سے 60 کروڑ ڈالرز کے نقصان کا خدشہ
سال 1994 کی پالیسی کے تحت قائم ہونے والی آئی پی پیز کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی۔ اس طرح بجلی کی خریداری کے معاہدے کے شیڈول 6 کے تحت ٹیکس میں 4 فیصد کی چھوٹ دی گئی۔ آئی پی پیز کے معاملات میں تبدیلی کی صورت میں، واجبات میں تاخیر کی صورت میں اور تاخیر کی وجہ سے اس پر سود سمیت رقوم کی وصولیوں کی صورت میں مالیاتی معاملات تبدیل ہوتے رہے اور اخراجات بڑھتے گئے۔ جو بیلنس شیٹ تیار ہوئی اس پر بھی وہی 4 فیصد چھوٹ دی گئی۔
حکومت پاکستان سے ادائیگیوں میں تاخیر کی صورت میں اصل رقم پر بنیادی شرح سود سمیت مذید ساڑھے 4 فیصد یعنی کائبور پلس 4.5 فیصد ادا کیا گیا اور اس ساری اضافی رقم پر جو منافع حاصل ہوئے ان پر بھی 4 فیصد ٹیکس کی چھوٹ ملتی رہی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یوں 40 سے 60 کروڑ یا شاید ارب ڈالرز کی ٹیکس چھوٹ دے دی گئی ہو۔
بند بجلی گھر چلنے والے بجلی گھروں سے زیادہ مزے میں کیوں ہیں؟
حب میں ایک ایسا بجلی گھر بنایا گیا جس کی پیداواری صلاحیت 1 ہزار 320 میگا واٹ ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ 1 ہزار 320 میگاواٹ کے اس بجلی گھر کے لیے بجلی کی کوئی ٹرانسمیشن لائن نہیں تھی۔ تو یہ واضح ہوگیا کہ جب تک ٹرانسمیشن سے منسلک نہیں کیا جاتا یہ بند پڑا رہا اور اس کو اس کی صلاحیت کے مساوی اخراجات حکومت پاکستان کو برداشت کرنا پڑے۔
یہ واضح ہوگیا کہ اس طرح کے بجلی گھروں کا مقصد بجلی عوام کو دینے کے بجائے اسے بند کر رکھ صاف صاف پیسہ بنانا تھا۔ اس کے مقابلے میں اگر یہی بجلی گھر چلایا جاتا تو اسے ایندھن چاہیے۔ وہ فرنس آئل ہو، ڈیزل ہو، ایل این جی ہو یا کوئلہ، اسے خریدنا پڑتا، درآمد کرنا پڑتا، ایل سی اور دیگر جھنجٹ اٹھانی پڑتی اور پھر حکومت سے اس کے واجبات کی وصولی کے لیے بھی کئی پاپڑ بیلنا پڑتے۔ آخر میں منافع کی شرح وہی ہوتی جو ایک بند بجلی گھر کی ہے۔ ایسے میں واضح ہوگیا کہ بند بجلی گھر کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں، مزے رہے اور بجلی گھر چلا کر اذیت میں رہنا پڑا۔
آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کیوں ضروری ہے؟
اس سلسلے میں تیار کردہ رپورٹ سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ نجی بجلی گھروں سے بجلی بننے، بجلی تقسیم کرنے اور بجلی کی رقوم کی وصولیاں پاکستانی عوام سے ہر مرحلے اور موقع پر ناجائز کیا جاتا رہا ہے۔ صلاحیت کم تھی لیکن اسے زیادہ دکھا کر جعلی دعوے کیے جاتے رہے اور صلاحیت کے بارے میں گمراہ کن اعداد و شمار پیش کیے جاتے رہے۔ صلاحیت میں کمی اور پیداواری صلاحیت کم ہونے کا بوجھ بھی پاکستانی عوام پر منتقل کیا جاتا رہا۔ پیداواری لاگت بڑھنے اور اپنے نقصانات اور اخراجات بڑھنے کی سزا بھی حکومت پاکستان کے گلے میں ڈالی جاتی رہی۔
نقصان در نقصان اور ادائیگیوں میں تاخیر کی وجہ سے شرح منافع بھی حکومت پاکستان کے حصے میں ڈالی جاتی رہی۔ کوئلے کے 2 بجلی گھر ایسے بھی ہیں جن کی تعمیر کے دوران ہی ان کی لاگت میں اضافہ ہوتا رہا اور تعمیر کے دوران ہی انہیں مقرر کردہ ٹیرف سے زیادہ منافع ملتا رہا۔ اس لیے اس تمام شعبے کا فرانزک آڈٹ کیا جانا ضروری ہے۔