سخت ترین بجٹ کی تیاریاں عروج پر

1400 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کی بھرمار، ٹیکسز کی چھوٹ محدود اور دائرہ وسیع کیا جائے گا۔

پاکستان میں سخت ترین بجٹ کی تیاریاں عروج پر ہیں اور ملک ایک بار پھر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی دہلیز پر ہے اور آئی ایم ایف نے پاکستان کو کئی یقین دہانیوں کے بعد قرض کے موجودہ پروگرام میں دوبارہ شامل کرلیا ہے۔

پاکستان  نے 2019 میں آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالرز کا قرض پروگرام لیا ہوا ہے جو سال  2020 سے غیرفعال تھا جسے اب فعال کردیا گیا ہے۔ جولائی  2019 میں  پہلی قسط میں پاکستان ایک ارب ڈالرز، جبکہ دسمبر 2019 میں دوسری قسط میں 45 کروڑ ڈالرز ملے تھے۔

دسمبر 2019 کے بعد سے آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ پروگرام پر پاکستان کو کامیابی نہ ملی تاہم سال  2020 میں انسداد کورونا اقدامات اور فنڈز  کے لیے پاکستان کو 1ارب  30 کروڑ ڈالرز کا آسان شرائط کا قرض دیا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ٹوئٹ میں بھی آئی ایم ایف سے رقم ملنے کی تصدیق ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بل ہوانگ کو 2 دن میں 20 ارب ڈالرز کا نقصان

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف نے 24 مارچ کو ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس میں پروگرام بحال کرتے ہوئے قرض کی اگلی قسط جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔ اب  ادارے سے تیسری قسط ملنے کے بعد  پاکستان کو آئی ایم ایف سے اب تک  1.95 ارب ڈالر موصول ہوگئے ہیں۔

معیشت
Pakpublishers

 

آئی ایم ایف کے 49 کروڑ ڈالرز فری لنچ نہیں،  کیا پاپڑ بیلنا پڑیں گے؟

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی، تیسری قسط کی منظوری اور شیڈول کے بغیر  24 مارچ کو ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس، یہ سب کچھ کہنا تو آسان ہے لیکن اسے حقیقت بنانے کے لیے کئی پاپڑ بیلنا پڑیں گے۔

پاکستان نے آئی ایم ایف کو اس پروگرام کی بحالی کے لیے تین بڑی یقین دہانیاں کرائی ہیں۔

سب سے پہلی یقین دہانی یہ کہ  پاکستانی حکومت بجلی 3 روپے 34 پیسے مہنگی کرے گی۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں 1 روپیہ 95 پیسے بجلی مہنگی کرنے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں بجلی مزید ایک روپیہ  63 پیسے مہنگی ہوگی۔  کورونا کے دوران بجلی کے بلوں میں جو  40 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا تھا اسے اب مکمل طور پر وصول کیا جائے گا۔

مہنگائی اور بلند شرح منافع بدستور قائم رہیں گے اور اس کی وجہ سے پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار کچھوے کی چال سے بڑھتے ہوئے محض  1.5 فیصد ہی ترقی کرے گی۔

پست شرح نمو معاشی سرگرمیوں کو محدود کرے گی اور بے روزگاری بدستور قائم رہے گی اور کاروبار کے پہیے کی رفتار سست کردے گی۔

پاکستان کو آمدن بڑھانے کےلیے بجٹ میں ٹیکس محصولات اور نان ٹیکس آمدنی بڑھانا ہوگی۔ ٹیکس آمدن میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹیکس ہدف میں 1400 ارب روپے کا اضافہ ہوگا اور اسے  4600 سے بڑھا کر 6000 ارب روپے تک پہنچایا جائے گا۔ آئی ایم ایف سے لیے جانے والے وعدے کے مطابق بجٹ میں ٹیکس کی رعایتیں محدود کی جائیں گی اور ٹیکس کا دائرہ کار بڑھا کر نئے ٹیکس دہندگان شامل کیے جائیں گے۔

ایف بی آر

نان ٹیکس آمدن میں اضافہ کرنے کےلیے پٹرولیم لیوی کی زیادہ سے زیادہ حد قائم رکھی جائے گی اور  پٹرولیم لیوی کی مد میں 30 روپے  فی لٹر وصولی کی روش برقرار رکھ کر پٹرولیم لیوی سے سالانہ نان ٹیکس آمدن 600 ارب روپے سے زیادہ جمع کی جائے گی۔

یوں نان ٹیکس آمدن کا تخمینہ  1444 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ٹیکس آمدن کی تقسیم صوبوں اور وفاق کے درمیان ہوتی ہے جبکہ نان ٹیکس آمدن کا بڑا حصہ وفاق کا ہوتا ہے اور یہ قومی محاصل یعنی این ایف سی کا حصہ نہیں ہوتا۔

اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کی یقین دہائی کرائی گئی ہے، اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کی خود مختاری پر پارلیمنٹ سے قانون سازی بروقت کرائی جائے گی۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا مسودہ قانون وہی ہوگا جو کہ ابتدا میں طے پا چکا ہے۔ یعنی کرنسی نوٹ چھپانے کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان کو صاف انکار کرسکتا ہے اور اسٹیٹ بینک اور گورنر اسٹیٹ بینک وزیر خزانہ کی بجائے صرف پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوں گے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے جو مشکلات اہداف درپیش نہیں انہیں کسی بھی صورت میں جون تک مکمل کرنا ہوگا۔

پاکستان گرے لسٹ

یعنی وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے اہداف پر بروقت عمل درآمد کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں پورے ملک کے پراپرٹی ڈیلرز کو ہائی رسک زونز بنانے ہوں گے۔ کیش پراپرٹی خرید نے اور بیچنے والوں کی تفصیلات دینا ہوں گی اور پراپرٹی کے لین دین میں مشکوک ٹرانزیکشنز کو بھی رپورٹ کرنا ہوگا۔ ملک بھر کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس بھی اپنے صارفین کے مشکوک حسابات کی مخبری کریں گے۔ ٹیکس وکلا بھی اپنے صارفین کی مشکوک آمدن بتانے کے پابند ہوں گے۔

متعلقہ تحاریر