ایف پی سی سی آئی کا سیلز ٹیکس کی شرح 5 فیصد کرنے کا مطالبہ

ایف پی سی سی آئی کے کورآرڈینیٹر مرزا عبدالرحمٰن نے انکم ٹیکس میں 10 فیصد سے زیادہ رقم جمع کرانے پر ٹیکس آڈٹ ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے مطالبہ کیا ہے کہ انکم ٹیکس میں 10 فیصد سے زیادہ رقم جمع کرانے پر ٹیکس آڈٹ ختم کیا جائے اور سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جائے۔

وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت نے وزیر اعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار خسرو بختیار اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کو بجٹ تجاویز پیش کردی ہیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے کوآرڈینیٹر اور کوآرڈینیشن کمیٹی کے سربراہ مرزا عبدالرحمٰن نے نیوز 360 سے گفتگو میں بتایا ہے کہ کرونا کی وباء اور لاک ڈاؤن کے بعد صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا، چیئرمین ایف بی آر

مرزا عبدالرحمٰن نے کہا ہے کہ موجود حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ صنعت اور کاروبار کو چلنے دیا جائے۔ انکم ٹیکس میں 10 فیصد سے زیادہ رقم جمع کرانے پر ٹیکس آڈٹ ختم کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص گذشتہ سال 10 لاکھ روپے کا انکم ٹیکس جمع کروا چکا ہو اور آئندہ مالی سال وہ اس میں 10 فیصد اضافہ کر کے 11 لاکھ روپے انکم ٹیکس دیتا ہے تو اسے فائنل ٹیکس تصور کر کے وصول کرلیا جائے اور اسے ٹیکس آڈٹ میں ڈال کر ہراساں نہ کیا جائے۔

10 فیصد اضافی ٹیکس کو فائنل قرار دینے کا کیا فائدہ ہوگا؟

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے کوآرڈینیٹر اور کوآرڈینیشن کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت نے تجویز دی ہے کہ بجٹ میں ایسا طریقہ کار اپنایا جائے کہ اگر کوئی شخص آمدن میں 10 فیصد اضافہ کر کے ٹیکس جمع کرائے تو اس کے ٹیکس گوشوارے کو حتمی سمجھا جائے اور ٹیکس آڈٹ کر کے اس کے کاروبار کو متاثر نہ کیا جائے۔ اس طرح صنعت کار اور تاجر سمیت ملک کے بڑے ٹیکس دہندگان کی توجہ کاروبار پر ہوگی اور انہیں انکم ٹیکس دفاتر پر چکر لگانے سے بچایا جاسکے گا۔ یوں کاروبار اور روزگار میں اضافہ ہوگا اور معاشی سرگرمیاں ٹیکس وصولیوں کو بہتر کریں گی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا طریقہ کار تبدیل کرنے کے لیے ٹیکس سے متعلق شکایات کی کمیٹی میں ایف پی سی سی آئی سے اراکین شامل کیے جائیں گے۔

بجٹ میں روزگار اور کاروبار کا فروغ کیسے ہوگا؟

مرزا عبدالرحمٰن نے بتایا کہ بجٹ میں ہوٹلنگ کو باقاعدہ انڈسٹری قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ ہوٹلز اور شادی ہالز پر ٹیکس کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ہوٹلنگ انڈسٹری کم وقت میں زیادہ روزگار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جس پر ٹیکسز بہت زیادہ ہیں اور اس وجہ سے ٹیکس چوری بھی بڑھ جاتی ہے۔

معیشت کو کیسے دستاویزی بنایا جائے گا؟

ایک سوال کے جواب میں مرزا عبدالرحمٰن نے کہا کہ نادرا کے ذریعے ٹیکس گزاروں کے اثاثہ جات، گاڑیاں، مشینری، جائیدادیں اور یوٹیلٹی بلز کو رجسٹر کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی ٹیکس اداروں اور محکموں میں بار بار اور الگ الگ ٹیکس جمع کرانے کی اذیت ختم کی جائے اور ون ونڈو کے ذریعے ٹیکس جمع کرنے کی سہولت دی جائے۔ گاڑیوں، جائیدادوں اور اثاثہ جات کی رجسٹریشن 3 ماہ کے اندر جمع کرانے کی پابندی عائد کی جائے اور اس دوران ٹیکس کی رعایت دی جائے۔

ٹیکس تنازعات کم وقت میں طے کرنا کیسے ممکن ہوگا؟

مرزا عبدالرحمٰن نے نیوز 360 کو بتایا کہ ٹیکس گزاروں کی شکایات سے متعلق فورم میں تاجروں اور صنعت کاروں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ تاجر اور صنعت کار ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن نچلے گریڈ میں موجود ٹیکس عملہ انہیں ہراساں کرتا ہے۔ ٹیکس گزاروں کے لیے یہ ہراسگی ٹیکس آمدن کو متاثر کرتی ہے اور صنعت کاروں اور تاجروں کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ ٹیکس جمع کرانے کے طریقہ کار میں حائل مشکلات اور پیچیدگیاں ختم کی جائیں۔

گاڑیوں کے پرزہ جات پر ٹیکس 93 فیصد کیوں؟

ایک سوال کے جواب میں مرزا عبدالرحمٰن نے بتایا کہ سیلز ٹیکس میں رجسٹر ہونا اور نہ ہونا اتنا پیچیدہ طریقہ کار ہے کہ کئی سال سے محکمہ اور ٹیکس گزار اسے سمجھ نہیں پائے ہیں۔ سیلز ٹیکس میں نان رجسٹرڈ سے خام مال خرید کر اسے کوئی پرزہ بنانے اور پھر اسے نان رجسٹرڈ کو ہی فروخت کرنے کے مرحلے میں سیلز ٹیکس شامل ہوتا جاتا ہے۔ جب رجسٹرڈ مینوفیچرز تک پرزہ جات پہنچتے ہیں تو اس پر سیلز ٹیکس 93 فیصد ہوچکا ہوتا ہے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے کوآرڈینٹر اور کوآرڈینشن کمیٹی کے سربراہ مرزا عبدالرحمٰن نے مزید کہا ہے کہ وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت کے وفد نے وزیر اعظم عمران خان، صدر مملکت عارف علوی، وزیر صنعت خسرو بختیار اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کو موٹرسائیکل اور گاڑیوں کے پرزہ جات پر مختلف مراحل میں 93 فیصد ٹیکس کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ اگر سیلز ٹیکس کی شرح 17 کے بجائے 5 فیصد کردی جائے تو یہ تمام پیچیدگیاں اور ٹیکس چوریاں ختم ہوجائیں گی اور پہلے سے زیادہ ٹیکس جمع ہوگا۔

متعلقہ تحاریر