حکومت کا کے الیکٹرک کو مختلف کمپنیوں میں تقسیم کرنے پر غور
ایف پی سی سی آئی نے کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی ناقص فراہمی پر وفاقی حکومت کو رپورٹ پیش کی تھی۔
حکومت پاکستان کے الیکٹرک (کراچی الیکٹرک) کو کسی غیرملکی فرم کو بطور ایک کمپنی منتقل کرنے کے بجائے علیحدہ پیداواری، ٹرانسمیشن اور تقسیم کار کمپنیوں میں بدلنے پر غور کررہی ہے۔
پاکستان کے روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی ناقص فراہمی پر رپورٹ پیش کی تھی۔ حکومت پاکستان نے کراچی میں بجلی کی ناقص فراہمی پر ایف پی سی سی آئی اور کے الیکٹرک کے مابین حالیہ تنازعے کے بعد پالیسی پر غور شروع کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ 900 ارب روپے مختص
وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے توانائی اور پیٹرولیم تابش گوہر نے تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’حکومت پاکستان نے کے الیکٹرک کو بجلی کی پیداوار، ٹرانسمیشن اور تقسیم کار کے طور پر الگ الگ ادارہ بنانے کی سفارش کی حمایت کی ہے۔‘
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی تابش گوہر کو لکھے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ ’کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے کمپنی کو 3 الگ الگ اداروں میں تقسیم کردیا جائے۔‘
وزیراعظم کے معاون خصوصی تابش گوہر نے کہا ہے کہ انہیں وزیر اعظم آفس سے اس تجویز کا جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ تابش گوہر نے اپنے خط کے مندرجات وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی کے ممبران سمیت وزیر خزانہ، وزیر توانائی اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین سے بھی شیئر کیے ہیں۔
تابش گوہر نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے کراچی کو نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی 650 میگاواٹ سے 2000 میگاواٹ تک بڑھا کر اس سمت میں کام کرنا شروع کردیا ہے۔ تجارتی بنیاد پر بجلی کی خریداری کے معاہدے پر دستخط تاحال زیرالتوا ہیں۔‘
وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی تابش گوہر نے کہا ہے کہ ’دیگر تقسیم کار کمپنیوں کی طرح 2023 میں اجارہ داری ختم ہونے پر حکومت کو ایک مرتبہ پھر کے الیکٹرک کے صارفین کو خوردہ ترسیل (ریٹیل سپلائی) کے انتخاب کا موقع دینا پڑے گا جو حکومت کی پالیسی کے عین مطابق تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) کی اس امید کے ساتھ نجکاری کی گئی تھی کہ اس سے بجلی کے نظامِ ترسیل میں بہتری آئے گی تاہم وہ نتائج موصول نہیں ہوئے جن کی امید کی جاری تھی۔‘
حالیہ مہینوں میں کے الیکٹرک کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کے ایک بڑے کاروباری ادارے نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی جبکہ چین کی شنگھائی الیکٹرک لمیٹڈ نے کے الیکٹرک کے 66 فیصد حصص خریدنے میں دلچسپی حاضر کی تھی۔
تاہم منگل کے روز فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان کے الیکٹرک کی نجکاری کو رکوائیں۔ اگر موجودہ صورتحال میں نجکاری کی گئی تو کراچی، حب اور دھابیجی کی انڈسٹری کو تباہ کن نتائج کا سامنا کر پڑسکتا ہے۔‘
ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے وزیراعظم عمران خان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ ’شعبہ الیکٹرک میں موجودہ اجارہ داری سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی لاگت کا نقصان پہنچ رہا ہے اور مالکانہ حقوق کی تبدیلی سے قبل ضروری فیصلے نہ کیے گئے تو نتائج مایوس کن ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کے الیکٹرک حکام نے 2005 میں نجکاری کے وقت یہ طے کیا تھا کہ بجلی کی ترسیل میں ہونے والے نقصانات کو 19.5 فیصد کم کر کے 15 فیصد تک لے آئیں گے۔‘
تاہم کے الیکٹرک انتظامیہ نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ایف پی سی سی آئی کے دعوے محض قیاس آرائیوں پر مشتمل ہیں۔ جبکہ کے الیکٹرک نے کسی بھی دوسرے ادارے کی نسبت بجلی کے ترسیلاتی نظام میں بہتر کارکارگی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘