پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا، شرائط ابھی تک مخفی
معاشی تجزیہ کاروں کا اگر حکمرانوں نے واقعی پاکستانی معیشت کو بحال کرنا ہے تو انہیں اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئی ٹی اور ایکسپورٹ کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ قرض پروگرام بحال ہو گیا ہے ، تاہم قرض پروگرام کن شرائط پر بحال ہوا ہے نہ تو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بتا رہے ہیں اور نہ ہیں آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی اسٹیٹمنٹ سامنے آئی ہے۔
جمعرات کے روز آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اسٹاف لیول کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
ترجمان آئی ایم ایف کے مطابق قرض پروگرام کے تحت 1.17 بلین ڈالر کی قسط کی راہ ہموار ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے
ڈالر کی اونچی اڑان جاری، مزید2.19روپے مہنگا
سخت حکومتی اقدامات: گاڑیوں کی فروخت میں 30فیصد کمی کا خدشہ
تاہم ترجمان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ پروگرام آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی حتمی منظوری سے مشروط ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ کے منظوری کے بعد 1 ہزار 177 ملین ڈالر کی قسط جاری کردی جائے گی ، اس طرح جاری پروگرام کی کل ادائیگی تقریباً 4.2 بلین ڈالر ہو جائے گی۔
ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اس کے علاوہ مالی سال 2023 میں پروگرام کے نفاذ میں معاونت اور مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اضافی فنانسنگ پر بات چیت جاری رہے گے۔
ترجمان کے مطابق آئی ایم ایف بورڈ جون 2023 کے آخر تک EFF کی توسیع اور رسائی میں اضافے پر غور کرے گا۔
آئی ایم ایف کی ٹیم EFF کے تعاون سے قرض پروگرام کو تقریباً 7 بلین ڈالر تک لے آئے گا۔
نیتھن پورٹر کا بیان
آئی ایم ایف ٹیم کی سربراہی کرنے والے نیتھن پورٹر نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان ایک چیلنجنگ اقتصادی موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک مشکل بیرونی ماحول اس کے اندرونی پالیسیز کے جڑا ہوا جس کی وجہ سے گھریلو مانگ غیرمتوازن ہو گئی ہے۔
نیتھن پورٹر کا مزید کہنا ہے کہ معاشی پالیسیز میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے مالی سال 2022 میں پاکستان کو بڑے مالیاتی اور بیرونی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ، جس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا، اور زرمبادلہ کے ذخائر کو شدید دھچکا لگا۔
معاشی تجزیہ کاروں کا تبصرہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کا قرض پروگرام تو بحال کردیا ہے مگر کن شرائط پر یہ پروگرام بحال کیا گیا اس کی تفصیلات سامنے لانے سے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور آئی ایم ایف کے ترجمان گریز کررہے ہیں جبکہ موجودہ حکمران جب خود اپوزیشن میں تھے تو عمران خان حکومت سے آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی ڈیل کی تفصیلات کی ڈیمانڈ کرتے رہتے تھے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین آج تک دو مرتبہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام میں گیا ہے جبکہ بھارت نے آخر مرتبہ 90 کی دہائی میں آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج استعمال کیا تھا ، تاہم بھارت نے 2000 کے شروع میں تمام قرضے بمعہ سود ادا کر دیئے تھے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اپنے قرض کی واپسی کے سخت شرائط عائد کرتا ہے ، لیکن ہمارے حکمران طبقے کی ناعاقبت اندیش پالیسیز کی وجہ سے قرض ان کے مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ، عوام سے بھاری ٹیکسز بھی وصول کرلیے جاتے ہیں ، اشیائے ضروریہ پر غیرضروری ٹیکسز لگا کر افراط زر کو بڑہاوا دیا جاتا ہے مگر سال کے آخری میں قرض وہیں کا وہیں کھڑا رہ جاتا اور سود کے تھپڑ مزید منہ پڑ رہے ہوتے ہیں ، اگر موجودہ حکمران واقعی ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں ایسی پالیسیز کو ترتیب دینا ہوگا جس سے ملکی معیشت بھی صحیح سمت پر آجائے اور قرض کی ادائیگی بھی ممکن ہو سکے۔ ورنہ ملک پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے قارون کا خزانہ بھی کم ہوگا۔ ہمیں ایسے قابل لوگوں کو آگے لانا ہوگا جو اس ملک کو منجدھار سے نکال سکیں، حکومت کو آئی ٹی اور ایکسپورٹ کے شعبے پر خصوصی توجہ دینا ہوگا۔