وفاقی حکومت نے مالی سال کے پہلے 105 دنوں بینکوں سے بھاری قرضے وصول کیے
اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے ساڑھے تین مہینوں کے دوران بینکوں سے 800 ارب روپے کا قرضہ لیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے منگل کے روز جاری ہونے والے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق حکومت نے 1 جولائی سے 14 اکتوبر 2022-23 تک 608.5 ارب روپے کے قرضے وصول کیے ہیں جب کہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 37 ارب روپے کے خالص قرضے وصول کیے گئے تھے۔
اسٹیٹ بینک کے بیان کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ہدف سے زیادہ محصولات کی وصولی کے باوجود بھاری قرضہ لیا گیا۔
جولائی تا ستمبر کی سہ ماہی میں محصولات کی وصولی 17 فیصد بڑھ کر 1,635 ارب روپے رہی جبکہ محصولات کا ہدف 1,609 ارب روپے رکھا گیا تھا یعنی 26 ارب روپے ہدف سے زیادہ حاصل کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیے
ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کیلئے ڈیڑھ ارب ڈالر کے فنڈز جاری کردیئے
حکومت ملٹی نیشنل کمپنیز کے آگے ڈھیر ، وزیر خزانہ نے ادویات کی قیمتوں میں کمی کا غلط ٹوئٹ چلا دیا
حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لیے 7.47 ٹریلین روپے کا ہدف مقرر کیا ہے ، جسے ایک چیلنج کے طور پر سمجھا جارہا ہے جب کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت مالیاتی توسیع، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی پابند ہے۔
اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے ساڑھے تین مہینوں کے دوران بینکوں سے 800 ارب روپے کا قرضہ لیا ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں لیے گئے قرضوں سے 94 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہیں۔
مالیاتی ماہرین نے کہا کہ محصولات کی وصولی اب تک اچھی ہے لیکن دوسری سہ ماہی کے بعد اس میں کمی آئے گی کیونکہ معیشت توقعات سے زیادہ سست روی کا شکار ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت زیادہ اخراجات نہیں کر سکتی ، اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اخراجات کم کرنا ہوں گے۔ مالیاتی سختیوں کی وجہ سے معیشت پہلے سست روی کا شکار ہے۔ جبکہ مالی سال 23 کے لیے آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق شرح نمو تقریباً 2 فیصد ہو سکتی ہے۔
بینکوں نے 105 دنوں کے دوران 800 ارب روپے فراہم کیے ہیں جن کی واپسی 15 فیصد بلند ترین شرح سود کے ساتھ کرنا پڑے جس سے معیشت کو مزید دھچکا لگے گا۔
شرح سود میں اضافہ کرکے افراط زر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ یہی طرزعمل ترقی یافتہ معیشتوں میں اپنایا جارہا ہے۔ اس کے باوجود برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مالی سال 22 میں حکومت نے بجٹ سپورٹ کے لیے 3,177 ارب روپے کے قرض وصول کیے جس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا تھا۔
شرح نمو میں کمی کے باوجود حکومت نے 7.47 ٹریلین روپے کا محصولات کا ہدف مقرر کیا ہے جوکہ مالی سال 22 میں حاصل ہونے والے محصولات سے تقریباً 1,322 ارب روپے زیادہ ہیں۔