ای سی اے پی نے حکومت کو ڈالر کا ریٹ کم کرنے کا نسخہ سمجھا دیا
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے حکومت افغانستان کے ساتھ ٹریڈ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان(ECAP) کے چیئرمین ملک محمد بوستان نے کہا ہے کہ اگر اسٹیٹ بینک (ایس بی پی) ایکسچینج کمپنیوں کو ان ورڈ ریمیٹنس کا 50% حقیقی کسٹمرز کو فروخت کرنے کی اجازت دے تو ہمیں اُمید ہے کہ ‘ان شاء اللہ’ ڈالر کا ریٹ اور ڈیمانڈ کم ہوجائیگی۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان(ECAP) کے چیئرمین ملک محمد بوستان نے دیگر ممبران کے ہمراہ گورنر SBP جناب جمیل احمد خان صاحب سے میٹنگ کی اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ جب بھی ایکسچینج کمپنیوں کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو آپ اس مسئلہ کو فوری طور پر حل کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
عالمی بینک پنجاب اورخیبرپختونخوا کیلیے 50 کروڑ ڈالر دے گا
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کسان پیکیج اور نئے سی پیک منصوبوں پر سوالات اٹھادیے
ملک بوستان صاحب نے کہا کہ گزشتہ ہفتے کو ہماری وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب کے ساتھ آپ کے آفس میں میٹنگ ہوئی تھی جس میں انہوں نے ڈالر کا ریٹ دوبارہ بڑھنے کی وجوہات معلوم کی تھیں۔ میں نے انہیں بتایا تھا کہ حکومت کو افغانستان کے ساتھ ٹریڈ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ افغانی پاکستان سے ہر ماہ تقریباً 2 بلین ڈالر سرکاری اور غیر سرکاری تجارت ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال اور سرحدوں کے ذریعے افغانستان جاتے ہیں جس کا سارا بوجھ پاکستان کے ریزرو پر پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو فوری طور پر بارڈر ٹریڈیا لوکل کرنسی کی LCکھول کر بینکنگ چینل کے ذریعے تجارت کرنی چاہیئے۔ کیش ڈالر ٹریڈ پر پابندی عائد کرنی چاہیئے۔ دوسری بڑی وجہ گزشتہ ماہ افغان حکومت نے ایک سرکلر جاری کیا ہے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی روپے کو فوری طور پر کسی بھی فارن کرنسی یا افغانی کرنسی میں تبدیل کریں۔ یہ سرکولر جاری ہونے کے بعد میں نے فوری طور پر اسی دن وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب اور SBP سے درخواست کی تھی کہ وہ افغان حکومت سے بات کریں ورنہ ڈالر کا ریٹ بہت زیادہ بڑھ جائے گا کیونکہ افغانیوں کے پاس کھربوں پاکستانی روپے موجود ہیں۔ اس سرکولر کے بعد افغانی ٹریڈر اور پبلک بڑے پیمانے پر پاکستانی روپے کو فارن کرنسی میں تبدیل کر رہے ہیں۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے اُن سے بات کی تو افغان حکومت نے پاکستان کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کریں گے جس سے پاکستانی روپیہ مشکل میں آئے مگر اس کے باوجود افغانی بڑے پیمانے پر پاکستانی کرنسی کو فارن کرنسی میں تبدیل کر رہے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین کا کہنا تھا تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت نے افغان حکومت کے ساتھ 2 ارب ڈالرز کا کوئلے کا معاہدہ کیا ہے جو کہ 22 ہزار ٹن روزانہ آرہا ہے جس کی ویلیو 6 ملین ڈالرز ہے ، طالبان حکومت نے پاکستان سے وعدہ کیا تھا کہ افغانی تاجرپاکستانی ٹریڈر کو کوئلہ پاکستانی کرنسی میں فروخت کریں گے مگر معاہدے کے باوجود افغانی تاجر پاکستانی ٹریڈر کو پاکستانی روپے کی بجائے پاکستان سے کیش ڈالر لیکر یا دبئی درہم لیکر فروخت کررہے ہیں جس کی وجہ سے بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی ڈیمانڈ بہت زیادہ بڑھ گئی اس وجہ سے ڈالر کا ریٹ دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام ایکسچینج کمپنیوں کو پابند کیا ہوا ہے کہ وہ ECAP کے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق ڈالر کی خریدوفروخت کریں۔
ملک بوستان کا مزید کہنا تھا کہ ایکسچینج کمپنیوں کا ریٹ کم ہونے کی وجہ سے کسٹمر ایکسچینج کمپنیوں کو فروخت کرنے کی بجائے بلیک مارکیٹ میں جاکر فروخت کر رہے ہیں کیونکہ ان کا ریٹ ایکسچینج کمپنیوں کے مقابلے میں فی ڈالر 10 سے 15 روپے زیادہ ہے۔ اس غیرقانونی خریدوفروخت کی وجہ سے ستمبر 2022 کے بعد ایکسچینج کمپنیوں کا فارن کرنسی کی خریدوفروخت کا بزنس تقریباً 80 فیصد کم ہو گیا ہے کیونکہ اس سے پہلے ایکسچینج کمپنیوں کے کاؤنٹر پر روزانہ کسٹمرز تقریباً 10 سے 15 ملین ڈالر کے برابر سعودی ریال، درہم اور دیگر غیر ملکی فارن کرنسیاں خریدوفروخت کرنے آتے تھے جو کم ہوکر اب صرف 2 سے 4 ملین ڈالر کے برابر رہ گئی ہے۔ اس وقت ایکسچینج کمپنیوں کے کاؤنٹر پر 1% کسٹمر ڈالر فروخت کرنے آرہے ہیں جبکہ خریدنے والے پہلے کی نسبت 200% زیادہ ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے میٹنگ میں آپ سے درخواست کی تھی کہ ڈالر کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے ایکسچینج کمپنیوں کے پاس ڈالر بہت زیادہ کم ہو گیا ہے۔ اب ہم صرف اُن کسٹمرز کو ڈالر فروخت کر رہے ہیں جنہوں نے امریکہ کا سفر کرنا ہے یا ہیلتھ اور ایجوکیشن کی فیس بھیجنی ہے۔ ڈالر کی ہولڈنگ کرنے والے کسٹمرز کو فی الحال ڈالر فروخت نہیں کر رہے۔اس وقت SBPنے ایکسچینج کمپنیوں کے اوپر یہ پابندی عائد کی ہوئی ہے کہ ان کے اکائونٹ میں جتنی بھی ورکر ریمیٹنس آئیگی اُس کا 100% وہ انٹر بینک میں سرینڈر کرینگے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر SBP ایکسچینج کمپنیوں کو ان ورڈ ریمیٹنس کا 50%حقیقی کسٹمرز کو فروخت کرنے کی اجازت دے تو ہمیں اُمید ہے کہ انشااللہ ڈالر کا ریٹ اور ڈیمانڈ کم ہوجائیگی۔ ہماری درخواست پر گورنر صاحب نے ایکسچینج کمپنیوں کی ان ورڈ ورکر ریمیٹنس کا 20%فیصد کسٹمرز کو فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ جس کے لیئے ہم ان کے بہت شکر گزار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم آپ سے یہ بھی درخواست کرینگے کہ SBP کی طرف سے ایک پورٹل بنایا جائے جو ایکسچینج کمپنیاں جن کسٹمرز کو بھی ڈالر فروخت کریں اُن کا تمام ریکارڈ SBP کو بھیجیں۔ SBP ان تمام کسٹمرز سے ڈالر خریدنے کی تصدیق کرے تاکہ کسی بھی ایکسچینج کمپنی کاکوئی بھی ایمپلائی اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اُمید ہے کہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے مفاد کی خاطر آپ ایکسچینج کمپنیوں کو بہت جلد یہ اجازت دینگے۔ اس سے پہلے بھی میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہSBP ہمیں اور پبلک کو ایکWhistleBlower ای میل کا ایڈریس دیا جائے۔ جیسے ہی کسی کمرشل بینک یا ایکسچینج کمپنی کے مالکان کو یا پبلک کو یہ علم ہو جائے کہ یہ ایمپلائی بغیر رسید کے غیرقانونی فارن کرنسی کی خرید وفروخت کر رہے ہیں اُن کے خلاف فوری طور پر اسی وصل بلور ای میل پر اُس ایمپلائی کا نام، فون نمبر اور ایڈریس بھیجا جائے۔ اگر وہ اطلاع سچی ہو تو SBPاُن ایمپلائز کے خلاف فوری طور پر ایکشن لے۔ اسی طرح ہم بھی اپنی تمام ایکسچینج کمپنیوں کے کائونٹر پر اسی طرح وصل بلور ای میل کا ایڈریس کا نوٹس چسپاں کرینگے۔ کوئی ایمپلائی اگر اس طرح غیرقانونی خریدوفروخت میں ملوث ہو تو پبلک اس کی کمپلین کرے۔ ہم فوری طور پر اس ایمپلائی کے خلاف ایکشن لینگے۔
ملک محمد بوستان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی ڈیمانڈ کو کم کرنے کے لیئے حکومت کو چاہیئے کہ کریڈٹ کارڈ کی لمٹ کم کرے اور ٹورزم پر پابندی عائد کرے اس کے ساتھ ٹریولنگ کوٹہ 10ہزار ڈالر سے کم کر 5 ہزار ڈالر کیا جائے۔عوام سے بھی ہماری درخواست ہے کہ اس وقت ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں سرمایہ کاری کریں۔ یہ وقتی طور پر ریٹ بڑھا ہوا ہے۔۔ انشااللہ ڈالر کا ریٹ آنے والے دنوں میں 200 روپے سے بھی کم ہوسکتا ہے۔