ایف پی سی سی آئی نے رائس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دینے کی حمایت کردی

 وعدے کے باوجود سیلاب سے متاثرہ چاول کے زمینداروں کو حکومتی مالی مدد نہیں ملی، رفیق سلیمان

کراچی: وفاق ایوانہائے تجارت و صنعت (ایف پی سی سی آئی) نے رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ رائس سیکٹر کو انڈسٹری کا فوری درجہ دیا جائے اور دیگر 5 برآمدی صنعتوں کی طرح رائس کو بھی سستی بجلی مہیا کی جائے۔

ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے "رائس” کی دوسری میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کمیٹی کنوینر رفیق سلیمان نے کہا کہ پاکستان میں کموڈٹیز میں چاول سب سے بڑا برآمدی سیکٹر ہے اس لئے حکومت رائس انڈسٹری کا درجہ دینے کا فوری اعلان کرے، حکومت اگر ایف پی سی سی آئی کی تجاویز پر عمل کرے تو تمام تر اکنامک انڈیکیٹر بہتر ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایم جی موٹرز نے پاکستان میں تیار ایچ ایس ایسنس کی بکنگ شروع کردی

سرکلر ڈیٹ 4177 ارب تک پہنچ گیا، سالانہ 129 ارب کا اضافہ جاری

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے وعدے کے باوجود سیلاب سے متاثرہ چاول کے زمینداروں کو مالی مدد فراہم نہیں کی ہے، اگر کسان کے پاس پیسہ نہیں ہوگا تو وہ چاول، گندم یا کوئی دوسری فصل کیسے لگائے گا اس لئے حکومت اپنا وعدہ فوراً پورا کرے۔

اجلاس میں فیڈریشن چیمبر کے سینئرنائب صدر سلیمان چاؤلہ ،  نائب صدر شبیر منشا چھرا ، چیئرمین رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن چیلا رام ، صدر لوئر سندھ رائس ملز ایسوسی ایشن اور جوائنٹ سیکریٹری سندھ ، بلوچستان رائس مل ایسوسی ایشن فاروق احمد چھیپا ، جاوید جیلانی ، فیصل انیس اور دیگر ممبران بھی شریک تھے۔

رفیق سلیمان نے کہا کہ حکومت سندھ نے یہ واضح کیا ہے کہ سندھ میں 70 فیصد چاول کی فصل متاثر ہوئی ہے حالانکہ نان باسمتی چاول کی ایکسپورٹ میں 15 فیصد کمی آئی ہے جبکہ ملز مالکان کا کہنا ہے کہ فصل 30 فیصد متاثر ہوئی اس طرح حکومت کے اعدادوشمار غلط ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ پنجاب میں چاول کی فصل بمپر ہوئی ہے اور باستمی ایکسپورٹ پچھلے سال کی نسبت زیادہ رہے گی اور قیمت بھی زیادہ ملے۔

رفیق سلیمان نے کہا کہ جولائی سے اکتوبر 2022 میں 18 کروڑ 14 لاکھ 81 ہزار ڈالر مالیت کا 1 لاکھ 70 ہزار 774 میٹرک ٹن باسمتی چاول اور 36 کروڑ 34 لاکھ 83 ہزار ڈالرز مالیت کا 7 لاکھ 25 ہزار 662 میٹرک ٹن نان باسمتی چاول برآمد کیا گیا ہے، لیکن اس وقت سب سے خطرناک صورتحال یہ ہے کہ انٹربینک میں ڈالر 225 روپے ہے جبکہ اوپن مارکیٹ سے ڈالر 250 روپے میں مل رہا ہے، 25 روپے کا فرق پر حکومت کی خاموشی حیران کن ہے۔

ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر سلیمان چاؤلہ نے کہا کہ چاول پاکستان سے ایکسپورٹ ہونے والی سب سے بڑی کموڈٹی ہے، رائس ایکسپورٹرز چائنا کی مارکیٹ پر بھرپور توجہ دیں تو ایک بڑی مارکیٹ میسر آسکتی ہے، رائس ایکسپورٹرز حکومت پاکستان سے رائس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دلوانے کی جدوجہد کو تیز کرے، فیڈریشن چیمبر آف کامرس کا بھرپور ساتھ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (ریپ) کو حاصل رہے گا۔

سلیمان چاؤلہ نے کہا کہ عید کے بعد کراچی میں رائس فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا، حکومت دیگر5 صنعتوں کی طرح  پاکستان سے سب سے زیادہ اجناس ایکسپورٹ ہونے والے رائس سیکٹر کو بھی بجلی سستی مہیا کرے۔

ریپ کے چیئرمین چیلا رام نے کہا کہ رائس ایکسپورٹرز کو گیس کی سپلائی بند ہے جبکہ ایکسپورٹرز نے کام جاری رکھنے کیلئے 10 کروڑ روپے جنریٹر لے رہا ہے مگر جب کنکنشن نہیں ملے گا اور گیس نہیں ملے گی تو پھر رائس فیکٹریاں کیسے چلیں گی اور ایکسپورٹ کیسے ہو گی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔

انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ میں رائس ایکسپورٹرز کے اربوں روپے موجود ہیں لیکن نہ تو یہ رقم رائس سیکٹر کو مل رہی ہے اور نہ ہی ای ڈی ایف میں ریپ کا کوئی نمائندہ شامل کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت سوئی ہوئی ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو ملک میں بدترین بحرانی کیفیت کا خدشہ  ہے، سیاسی اختلافات سے پاکستان کی معیشت دلدل میں جارہی ہے۔

ریپ کے چیئرمین چیلا رام کا کہنا تھا کہ سندھ میں سیلابی پانی پنجاب سے گزر کر آیا اور تباہی مچائی ہے، 70 فیصد چاول کی فصل نہیں ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ گندم ، چینی کی فصل ملک میں کتنی ہے اور نہ ہی ملک میں کوئی ادارہ ایسا ہے جو درست معلومات فراہم کرسکے ، تاہم اس وقت ملک میں باسمتی چاول سرپلس ہے۔

چیلا رام نے کہا کہ فلپائن ، ملائشیا اور انڈونیشیا ہمارے لئے بہترین مارکیٹ ہیں مگر انڈونیشیا میں ہمیں مشکلات پیش آرہی ہیں، ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ انڈونیشیا سے آئل امپورٹ کررہی ہے تو ان پر دباؤ ڈالے کہ وہ پاکستان سے چاول خریدے۔

صدر لوئر سندھ رائس ملز ایسوسی ایشن فاروق احمدچھیپا نے اجلاس میں بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے چاول کی ملیں بند پڑی ہیں،بند ملوں سے بھی بجلی کا مقررہ لوڈ کے پیسے وصول کئے جارہے ہیں جبکہ انکم ٹیکس نوٹسز کی بھی بھرمار ہے، ہم مزدور ہیں اور ہمیں اتنی بچت ہی نہیں ہوتی پھر بھی ٹیکسز کی بھرمار کیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک رائس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ نہیں ملے گا تو ہمیں بھی عزت نہیں ملے گی، سندھ میں فصل کم نہیں ہے لیکن اَپرسندھ میں فصل 50 فیصد نقصان میں ہے، حیدرآباد، بدین، ٹھٹھہ سمیت لوئرسندھ  کے اہم علاقے چاول کی پیداوار کا بڑا ذریعہ ہیں۔

فارق چھیپا نے کہا کہ ہر اسٹیشن پر چاول پلانٹ اور بوائلر لگایا جائے جبکہ ای ڈی ایف سے ریپ ہماری بھی مدد کرائے کیونکہ اگر رائس ملوں کو جدید بنایا جائے گا تو مال بھی اچھا ہوگا۔

متعلقہ تحاریر