مغل اتنے ہی برے تھے تو ان کا تعمیر کردہ تاج محل اور لال قلعہ گرادو، نصیر الدین شاہ

لوگوں کو لوٹ مار کیلیے آنے والے ترکوں اور بعد میں آنے والے مغلوں میں فرق سمجھنا چاہیے، آج بحث مباحثے کی گنجائش نہیں، ٹیپو سلطان نے انگریزوں کو بھگانے کیلیے جان دیدی اور یہاں پوچھا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان چاہیے یا رام مندر، ایسے میں یہ لوگ میرا نقطہ نظر سمجھ سکتے ہیں اور نہ میں ان کا، سینئر اداکار

سینئر بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ مغلیہ دور پر نکتہ چینی کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مغل اتنے ہی برے تھے تو ملک میں مغلوں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارات تاج محل اور لال قلع کو منہدم کردینا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ لوگوں کو ہندوستان میں میں لوٹ مار اور خونریزی کیلیے آنےو الے نادر شاہ، محمود غزنوی اور تیمور جیسے ترکوں اور بعد میں آنے والے مغلوں کا فرق سمجھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

عالیہ بھٹ کی نجی تصاویر وائرل کرنے پر بالی ووڈ کا شدید ردعمل

جاوید اختر کی پاکستان میں بیٹھ کر مودی کو خوش کرنیکی کوشش

بالی ووڈ کے سینئر اداکار نصیر الدین شاہ نے اپنی ویب سیریز”تاج: ڈیوائیڈڈ بائے بلڈ“ریلیز سے عین قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اس وقت بھارت میں صحت مند مباحثے کیلیے کوئی جگہ نہیں ہے، ایسے میں ان کے خیالاتسے اتفاق نہ کرنے والے ان کے نقطہ نظر کو کبھی نہیں سمجھ سکیں گے۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Aditi Rao Hydari (@aditiraohydari)

انہوں نے کہاکہ جہاں لوگوں کے پاس تاریخ کے بارے میں درست معلومات اور منطق نہیں ہوتی وہاں نفرت اور غلط معلومات کا راج ہوتا ہے، یہی وجہ ہے  کہ اب ملک کا ایک طبقہ ماضی بالخصوص مغلیہ سلطنت پر الزام تراشی کرتا رہتا ہے لیکن انہیں  اس پر غصہ نہیں آتا بلکہ ہنسی آتی ہے۔

نصیرالدین شاہ نے کہاکہ”آج جب مغلیہ دور پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں  تو مجھے حیرت ہوتی ہے اور یہ سب مضحکہ خیز لگتا ہے،میر مطلب ہے کہ یہ لوگ اکبر اور نادر شاہ یا بابر   کےقاتل پردادا تیمور میں فرق نہیں بتاسکتے لیکن پھر بھی ایسی باتیں اور دعوے کررہے ہیں“۔

انہوں نے کہاکہ ترک یہاں لوٹ مارکرنے آئے تھے لیکن مغل یہاں لوٹ مار کرنے نہیں بلکہ ہندوستان کو اپنا گھر بنانے آئے تھے اور انہوں نے ایسا ہی کیا، ان کے تعاون سے کون انکار کرسکتا ہے؟۔

سینئر اداکار نے کہاکہ جن لوگوں کا  یہ خیال  ہے کہ مغلوں نے جو کچھ کیا وہ برا تھا تو یہ ملکی تاریخ کے بارے میں ان کی کم فہمی کو ظاہر کرتا ہے، ہوسکتا ہے کہ تاریخ کی کتابیں ہندوستان کی مقامی ثقافت کی بنیاد پر مغلوں   پر حد سے زیادہ مہربان ہوں  ، لیکن تاریخ میں ان کے دور کو تباہ کن قرار دیکر تلف نہیں کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ یہ بدقسمتی ہے کہ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ بنیادی طور پر مغلوں یا انگریزوں تک محدود ہے، ہم لارڈ ہارڈی، لارڈ کارناوالس اور مغل بادشاہوں کے بارے میں تو  جانتے ہیں لیکن ہم گپتاخاندان یا موریا خاندان یا وجے انگاراسلطنت ،اجنتا کے غاروں کی تاریخ یاشمال مشرق کے بارے  میں نہیں جانتے، ہم ان میں سے کسی کے بارے میں نہیں پڑھاکیونکہ تاریخ کو انگریزوں یا انگریز پرستوں نے مرتب کیا ہے اورمیرے خیال میں یہ واقعی غلط ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس لحاظ جو لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ مغلوں مداح سرائی ہماری روایات کی قیمت پر کی جاتی ہے ، وہ کسی حد درست بھی ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ سچ بھی لیکن انہیں(مغلوں ) کو ولن بنانے کی ضرورت نہیں ہے،ا گر مغلیہ سلطنت  اتنی  ہی آسیب زدہ تھی تو اسکی مخالفت کرنے والے ان کی تعمیر کردہ یادگاروں کو گراکیوں نہیں دیتے؟اگر انہوں نے جوکچھ کیا وہ بھانک تھا تو تاج محل گرادو،لال قلعہ گرادو،قطب مینار گرادو۔

سینئر اداکار نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ہن لال قلعہ کو مقدس کیوں سمجھتے ہیں جبکہ اسے ایک مغل نے بنایاتھا، ہمیں ان کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ان کو بدنام کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔

اس سوال پر کہ کیا فی الحال ان تمام مسائل پر مدلل اور فکرانگیز بحث کی گنجائش ہے؟ تو انہوں نے کہاکہ نہیں، ہرگز نہیں کیونکہ آج بحث و مباحثہ پست ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، ٹیپوسلطان بدنام ہیں، وہ شخص جس نے انگریزوں کو بھگانے کیلیے اپنی جان دے دی، آپ سے پوچھاجاتا ہے کہ آپ ٹیپو سلطان چاہتے ہیں یا رام مندر؟ یہ کیسی دلیل ہے؟”میر نہیں خیال کہ مباحثے کی کوئی گنجائش ہےکیونکہ وہ لوگ کبھی میرا نقطہ نظرسمجھ سکتے ہیں اور نہ میں ان کا سمجھ سکتا ہوں۔

متعلقہ تحاریر