فہد مصطفیٰ پر صنفی منافرت کو بڑھاوا دینے پر تنقید؟

ڈرامہ 'ڈنک' سچے واقعے پر مبنی ہے۔ گزشتہ سال ایک طالبہ نے یونیورسٹی پروفیسر پر ہراسگی کا جھوٹا الزام لگایا جس پر پروفیسر نے خودکشی کرلی تھی۔

پہلے جلن نے آگ بھڑکائی، پھر نند نے ٹی وی پر دہشت پھیلائی اور اب ڈنک نے معاشرے کی حقیقت دکھائی۔ فہد مصطفیٰ کے پیش کردہ ان تنیوں ڈراموں پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ معروف اداکار پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے پر ڈراموں میں خواتین کے خلاف صنفی منافرت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ڈرامہ سیریل جلن

اس ڈرامے میں لڑکی اپنی بہن کی شان و شوکت سے متاثر ہو کر منگیتر سے رشتہ توڑ دیتی ہے۔ بعد میں اپنے ہی بہنوئی سے شادی کرلیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی بھی خاتون کا پیسے سے متاثر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مختلف خاندانوں میں بہنوں کے درمیان اس حوالے سے جلن بھی پائی جاتی ہے۔ بعض مرتبہ یہی حسد خواتین کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیتا ہے۔

ڈرامہ سیریل نند

ہمارے معاشرے میں نند اور بھابی کے درمیان لڑائی جھگڑے عام بات تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ ڈرامے میں کئی جگہ معاملات حقیقت سے بالکل برعکس دکھائے گئے ہیں۔ بہرحال پھر بھی یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے جسے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈرامہ سیریل ڈنک

اس ڈرامے کی اب تک ایک ہی قسط نشر کی گئی ہے۔ تاہم خواتین کے منفی کردار پر منبی مسلسل تیسرے ڈرامے کے بعد فہد مصطفیٰ شائقین کے ریڈار پر آگئے ہیں۔

ڈرامے میں خاتون کو ‘می ٹو’ مہم کا غلط استعمال کرتے دکھایا گیا ہے۔ سیریل میں طالبہ اپنے یونیورسٹی پروفیسر پر ہراسگی کا الزام عائد کر کے اسے بدنام کردیتی ہے جو کہ ایک اہم سماجی مسئلہ ہے۔

 حقیقی واقعے پر مبنی ڈرامہ

  آٹھ جولائی 2019ء کو لاہور کے ایم اے او کالج کی طالبہ زوبیہ نسیم نے پروفیسر افضل کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کو ایک درخواست لکھی جس میں پروفیسر پر کلاس کی لڑکیوں کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

فہد مصطفیٰ پر تنقید

یہ بھی پڑھیے

جڑواں بہن کے بغیر منال خان کی سالگرہ

معاملے پر تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک جھوٹا الزام تھا۔ تاہم 8 اکتوبر 2019 کو پروفیسر افضل نے تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹرعالیہ کو خط لکھا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود بھی تحقیقاتی کمیٹی نے انہیں تحریری طور پر آگاہ نہیں کیا ہے۔ جس کے باعث وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کی زندگی میں کچھ باقی نہیں رہا۔ انہوں نے خط میں وصیت کی کہ اگر انہیں موت آجائے تو تنخواہ اور اس الزام سے بریت کا خط ان کی والدہ کو دے دیا جائے۔

فہد مصطفیٰ پر تنقید

اس خط کے اگلے روز ہی یعنی 9 اکتوبر 2019ء کو پروفیسر افضل نے خودکشی کرلی ۔ آخری خط میں کہا کہ انہوں نے اپنا معاملہ خدا کی عدالت پر چھوڑ دیا ہے۔

فہد مصطفیٰ پر تنقید

اس حقیقی واقعے کو اس قدر تفصیل سے بتانے کا مقصد یہی ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جہاں مرد خواتین پر جنسی تشدد اور ہراسگی کے کئی مقدمات میں مجرم قرار پائے ہیں لیکن وہیں خواتین جھوٹے الزامات سے کئی مردوں کی زندگیاں بھی تباہ کرچکی ہیں۔ اور ڈرامہ سیریل ڈنک میں اسی تلخ حقیقیت کو بیان کیا گیا ہے۔

ان تنیوں ڈراموں میں بلاشبہ خواتین کے منفی روپ کو نمایاں کیا گیا ہے تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ایسی خواتین بھی ہمارے  معاشرے کا حصہ ہیں۔

کیا فہد مصطفیٰ نے اِن ڈراموں میں عورت کے خلاف صنفی منافرت کو فروغ دیا ہے؟ یا پھر حقیقت پر مبنی ڈرامے دکھانے پر فہد مصطفیٰ پر تنقید بے جا ہے؟ اِس کا فیصلہ تو وہ لوگ کریں گے جو معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں لیکن ہر ایک کا معاملات کو پرکھنے کا اپنا الگ انداز ہوتا ہے۔

متعلقہ تحاریر