علی ظفر اور میشا شفیع کے مقدمے میں ابتداء سے اب تک کیا کیا ہوا؟

گذشتہ دنوں برطانوی اخبار ڈیلی میل نے میشا شفیع کی قید کی سزا سے متعلق غلط خبریں شائع کی تھیں۔

عالمی شہرت یافتہ پاکستانی گلوکار و اداکار علی ظفر کے گلوکارہ میشا شفیع کو ہراساں کرنے کے مقدمے میں گلوکارہ یا ان کے گواہان کی عدالت میں عدم پیشیوں کے باعث مقدمہ طول پکڑتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مہوش اعجاز نے ٹوئٹر پر اس مقدمے کی ابتدا سے لے کر اب تک کی تفصیلات شیئر کی ہیں۔

برطانوی اخبار ڈیلی میل کے ذریعے میشا شفیع اور علی ظفر کے مقدمے میں جعلی خبریں پھیلائی گئیں۔ جس کے بعد سوشل میڈیا ایکٹوسٹ مہوش اعجاز نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ اس بار وہ حقائق بیان کریں گی۔

ٹوئٹر پر اپنے سلسلہ وار ٹوئٹس کے ایک طویل تھریڈ میں مہوش اعجاز نے علی ظفر اور میشا شفیع کے مقدمے کی روز اول سے لے کر اب تک کی تفصیلات بتائی ہیں۔ ان کے پہلے ٹوئٹ کے مطابق علی ظفر کو پیپسی بیٹل آف دی بینڈ میں عاطف اسلم کی جگہ شامل کیا جانا تھا لیکن میشا شفیع کے الزامات کی وجہ سے ادارے نے ان کے ساتھ معاہدہ منسوخ کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ علی ظفر کو ان کے مینیجر رضوان رئیس کے ذریعے دھمکی دی گئی تھی جو ایک زمانے میں میشا شفیع کے مینیجر بھی رہ چکے ہیں۔ مہوش اعجاز نے اس ٹوئٹ کے ساتھ مینیجرکا عدالت میں دیا گیا بیان بھی شیئر کیا۔

مہوش اعجاز نے لکھا کہ صرف مینیجر ہی دھمکی نہیں دیتے تھے بلکہ سوشل میڈیا پر اس مقصد کے لیے متعدد جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے تھے جن میں نیہا سہگل نامی اکاؤنٹ بھی شامل ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اسی اکاؤنٹ کا تذکرہ شفاعت علی، مدیحہ نقوی اور شہزاد اقبال سمیت متعدد اینکر پرسنز نے اپنے شو میں کیا تھا۔ اس اکاؤنٹ نے علی ظفر کے خلاف ٹوئٹس کے ذریعے غلط معلومات پھیلائیں۔

سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے لکھا کہ جس دن علی ظفر نے اپنی فلم ’طیفا ان ٹربل‘ کے لیے پروموشن کا آغاز کیا اس دن سڑک پر نعروں اور پوسٹرز کے ذریعے انہیں ڈرایا اور ہراساں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

علی ظفر جیلوں میں قید خواتین کی آواز بن گئے

انہوں نے بتایا کہ اس سب کی حمایت ڈیلی ٹائمز ایڈیٹوریل، مینگو باز، کٹا کٹ اور ڈان امیجز جیسے مختلف آن لائن پورٹلز نے کی۔ ان میں سے بیشتر نے عدالتی فیصلوں یا اس مقدمے کے حقائق کی چھان بین کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔

مہوش اعجاز نے لکھا کہ ذہنی صحت اور معاشرتی انصاف کے بارے میں تقریر کرنے والے افراد بھی میشا شفیع اور علی ظفر کے اس معاملے میں لب کشائی کرنے لگے۔ حالانکہ کسی کے ان کے دلائل کی حمایت کرنے کے لیے کوئی ثبوت یا حقائق موجود نہیں تھے۔

انہوں نے بتایا کہ علی ظفر نے میشا شفیع کے خلاف اپریل 2018 میں ہتک عزت کا مقدمہ درج کیا تھا۔ وہ محتسب کے پاس چلی گئیں جس کے بعد یہ کیس اسی مہینے کے آخر میں درج کیا گیا تھا۔

پاکستان میں ہراساں کرنے کے لیے قانون موجود ہے۔ پاکستان پینل کوڈ 509 نے سڑکوں، اسکولوں، گھروں میں کسی بھی طرح سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ تو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے لیے محتسب کیوں؟

انہوں نے لکھا کہ یہ ایک سوال ہے جس کا میشا شفیع کی قانونی ٹیم شاید بہتر جواب دے سکتی ہے۔

سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے لکھا کہ میشا شفیع نے الزام لگایا کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے ان کے خلاف گواہی دی وہ علی ظفر کے لوگ تھے۔

ان کے مطابق میوزک کمپوزر اسد نے کہا کہ میرا علی ظفر کی طرف جانبدارانہ ہونے کا تاثر غلط ہے۔ میں غیرجانبدار ہوں کیونکہ میں سب کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ میرے مطابق یہ الزامات جھوٹے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ سارہ رضی دونوں کی بچپن کی دوست ہیں اور انہوں نے بھی الزامات کے بارے میں گواہی دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں علی ظفر کی طرف سے کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے اس کے باوجود بھی بہت سے لوگوں نے جھوٹے الزامات لگائے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ میشا شفیع مقدمہ درج ہونے کے تقریباً 2 سال بعد ہی صرف ایک بار پاکستان آئی تھیں۔

مہوش اعجاز نے بتایا کہ یہ وہی معاہدے ہیں جن پر علی ظفر کو الزام کے بعد ہٹادیا گیا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ ایف آئی اے نے اس معاملے کی دو سال تک مستقل تحقیقات کی اور بالآخر ایف آئی اے نے میشا شفیع کو قصوروار قرار دیا۔

مہوش اعجاز نے بتایا کہ میشا شفیع کو عدالت نے 27 مارچ کو طلب کیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ایک ہی وقت میں متعدد جعلی اکاؤنٹس کے الزامات عروج پر تھے اور علی ظفر کو ایک بدترین قسم کی سائبر جرائم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میشا شفیع کو منافع بخش معاہدوں جیسے پیپسی بیٹل آف دی بینڈز پر جج کی حیثیت، کوک اسٹوڈیو اور ویلو کے گانوں جیسے مواقع حاصل ہوئے۔

انہوں نے لکھا کہ یہ سب ہونے کے باوجود بھی علی ظفر کو نقصان نہیں پہنچا اور ان کی فلم کامیاب رہی۔

متعلقہ تحاریر