ٹرانس جینڈر ایکٹ پر نظرثانی کرکےاسکا نام خواجہ سرا ایکٹ رکھاجائے، ماریہ بی
خواجہ سراؤں کو 70 سال بعد ملنے پر والے حقوق پر ٹرانس جینڈر آکر بیٹھ گئے،ملک بھر کی مائیں اور والدین اس قانون کیخلاف آواز اٹھائیں،فیشن ڈیزائنر
معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے ٹرانس جینڈرایکٹ پر نظرثانی کرکے اس کا نام خواجہ سرا ایکٹ رکھنے کامطالبہ کردیا۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ” ٹرانس جینڈر ز “خواجہ سرا نہیں ہوتے ، ملک بھر کی مائیں اور والدین اس قانون کیخلاف آواز اٹھائیں۔
فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے اپنی بہنوں ناجیہ اور عافیہ کے ساتھ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں تینوں بہنوں نے مذکورہ معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ لوگوں کوٹرانس جینڈرز اور خواجہ سرا میں فرق ہی معلوم نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
بشریٰ انصاری کی مریم اورنگزیب کو ہراساں کرنے کی مذمت
آسکر میں پیش آئےافسوسناک واقعے کی نقالی پر ہم ایوارڈز کو تنقید کاسامنا
انہوں نے معروف ٹی وی اسٹار کم کارڈیشین کی والدہ کے دوسرے شوہر کیٹلین جینر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پہلے وہ مرد تھےاور پھر جنس تبدیل کرواکے عورت بن گئے ، ایسے لوگوں کو ہی ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ قانون ایسے لوگوں کیلیے نہیں بناتھا بلکہ یہ قانون خواجہ سراؤں کیلیے بنا تھا جو کہ ٹرانس جینڈر نہیں بلکہ انٹرسیکس ہوتے ہیں۔
ماریہ بی نے کہاکہ انٹر سیکس اور ٹرانس جینڈر میں بہت بڑا فرق ہے، 70سال بعد خواجہ سراؤں کو جو حقوق ملنے جارہے تھے اس پر بھی ٹرانس جینڈرز آکر بیٹھ گئے ہیں۔پاکستانی سیاستدانوں اور افراد کو ٹرانس جینڈرز اور خواجہ سرا افراد میں فرق کو سمجھنا ہوگا ۔
ان کا کہنا تھا خواجہ سرا قدرتی اور پیدائشی طور پر بعض پیچیدگیوں کے ساتھ جنم لیتے ہیں جنہیں ہم مخنث کہتے ہیں اور انگریزی میں انہیں انٹر سیکس کہا جاتا ہے۔
فیشن ڈیزائنر نے مزید کہا کہ ’ٹرانس جینڈرز‘ پیدائشی طور پر مخنث پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک مرد یا خاتون کے طور پر پیدا ہوتے ہیں اور بعد ازاں اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرواتے ہیں اور ایسے افراد کچھ سال بعد دوسری بار بھی اپنی جنس تبدیل کرواتے ہیں اور انہیں ’خواجہ سرا‘ سے ملانا غلط ہے، ایسے عمل سے مخنث افراد کے حقوق کی حق تلفی ہوگی۔
View this post on Instagram
فیشن ڈیزائنر کی بہنوں نے بھی بتایا کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ’ٹرانس جینڈرز‘ دراصل ’خواجہ سرا‘ نہیں ہوتے اور ایسے لوگوں کی جنس کو واضح نہ کرنے سے نئی نسل کے لوگ غلط نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈرز کی اسلام تو کیا کسی بھی مذہب میں اجازت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی مذہب ذاتی خواہش کی بنیاد پر پیدائشی جنس کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
تینوں بہنوں کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا کو اسلام میں حقوق حاصل ہیں اور انہیں پاکستانی آئین میں بھی ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں مگر ٹرانس جینڈرز کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا اور جو 2018 میں قانون بنایا گیا، وہ غلط تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون میں قرآن اور حدیث کا کوئی ذکر نہیں بلکہ ورلڈ پروفیشنل ایسوسی ایشن فار ٹرانس جینڈرز ہیلتھ (ڈبلیو پی اے ٹی ایچ)کے رہنما اصولوں سےرہنمائی لینے کی تجویز دی گئی ہے۔
انہوں نےکہا کہ یہ تنظیم اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ انسان کا پیدائشی متعین کردہ کوئی جنس نہیں ہوتا ،کچھ عرصے کے وقفے سے جنس تبدیل کی جاسکتی ہے،انہوں نے کہا یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایسے تنظیم کی پیروی کی جارہی ہے اور اسلامی قوانین کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔
ماریہ بی نے کہاکہ ماؤں اور والدین کو اس قانون کیخلاف آواز اٹھانی چاہیے ، انہوں نے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کا نام خواجہ سرا ایکٹ رکھنے کا مطالبہ کردیا۔