ڈرامہ سیریل سراب بیماری کے گرد گھومتے وہم کی کہانی

سراب کی کہانی ایک ایسی لڑکی حورعین کے گرد گھومتی ہے جو شیزوفرینیا جیسے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے۔

پاکستانی ڈرامے ساس بہو سے باہر نہیں نکلتے۔ ان میں کوئی نیاموضوع زیر بحث نہیں آتا۔ ان کو دیکھ کر کچھ نیا سیکھنے کو نہیں ملتا۔ پاکستانی ڈرامہ دیکھنے سے بہتر ہے کہ خبریں دیکھ لو۔

یہ وہ لوگ کہتے ہیں جو نا تو پاکستانی ڈرامے دیکھتے ہیں نا ہی ان کے بارے میں لکھا ہوا پڑھتے ہیں۔ کیونکہ ہم ٹی وی کا ڈرامہ سراب اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو وہ ان تمام باتوں میں سے ایک بھی نا کرتا۔

ایڈیسن ادریس مسیح کا لکھا ہوا یہ ڈرامہ جس کی ہدایتکاری محسن طلعت نے کی ہے۔ اس وقت تمام ڈراموں میں سب سے بہتر بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ اس میں نہ صرف اداکاروں نے دل و جان سے کام کیا ہے بلکہ اس سے وہ سب کچھ سیکھنے کو ملتا ہے جو عام طور پر ہمارے ٹی وی پر زیر بحث نہیں آتا۔

سراب کی کہانی کا جواب نہیں

سراب کی کہانی ایک ایسی لڑکی حورعین (سونیا حسین) کے گرد گھومتی ہے جو شیزوفرینیا جیسے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے۔ اس کے والدین (اورنگزیب لغاری، فریدہ شبیر) اس کی بڑی بہن وردہ (غنا علی) اور منجھلی بہن نمل (نازش جہانگیر) اس بیماری کے بارے میں نا تو جانتے ہیں اور نہ ہی اسے بیماری سمجھتے ہیں۔

اس لئے اسے کبھی بابا کے مزار پر لے جاتے ہیں تو کبھی کسی پیر کے پاس۔ اس کا ماموں زاد اور پھوپھی زاد بھائی اسفندیار (سمیع خان) اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اور شادی کرنا چاہتا ہے۔ وردہ اپنے دیور (جہانزیب خان) حورعین کی منگنی اس لئے کرا دیتی ہے تاکہ اس کی سسرال میں اس کی جگہ لینے والا کوئی نہ ہو لیکن وردہ کی سسرال میں کوئی نہیں جانتا کہ حورعین بیمار ہے۔

 ایسے میں جب اسفندیار کو پتہ چلتا ہے کہ حورعین کے والدین اسے اندرون سندھ پیر صاحب کے پاس لے کرگئے ہیں تو وہ وہاں جاکر نہ صرف حورعین کی عزت بچاتا ہے بلکہ وہاں سے واپسی پر اسے ڈاکٹر کے پاس بھی لے جاتا ہے۔

ڈاکٹر اسے بتاتی ہے کہ حورعین نارمل نہیں ہے۔ جب حورعین کے گھر والے اسفندیار پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے حورعین کے ساتھ رات گزاری تو وہ سب کے سامنے اپنا ‘جرم’ قبول کرتا ہے تاکہ اس کی شادی حورعین سے ہوجائے۔

اس کے والدین (کنزہ ملک، ساجد شاہ) اور اس کا دوست ثاقب (شفقت خان) اس کا ساتھ دیتے ہیں اور وردہ کی کوششوں کے باوجود رات گئے حورعین اور اسفندیار کا نکاح ہوجاتا ہے۔

 شادی کے بعد وہ اس کا خیال رکھنا شروع کردیتا ہے لیکن حورعین کا رویہ گھروالوں اور باہروالوں سب کے ساتھ عجیب ہی رہتا ہے۔ اسے ہر شخص پر شک ہوتا ہے چاہے وہ جاننے والا ہو یا غیر۔ اور اسی وجہ سے اسفندیار اسے کسی پرفضا مقام پر لے جانے کی سوچتا ہے۔

سولہویں قسط کے اختتام پر دونوں میاں بیوی پہاڑی علاقوں کی سیر کو گئے ہوئے ہیں جہاں حورعین پر ایک بار پھر دورہ پڑتا ہے اور دوائیں نا کھانے کی وجہ سے اسے ایک نہیں دو دو اسفندیار نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک اصلی اور ایک خیالی۔

یہی خیالی اسفندیار اسے تھوڑے دن کے بعد وہ کچھ کرنے پر ورغلاتا رہتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اصلی اسفندیار سے کبھی الجھی اور کبھی کھنچی سی رہتی ہے۔

سراب  دیگر ڈراموں سے مختلف کیوں ہے؟

سراب میں نا تو ساس بہو کی چپقلش کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور نا ہی گھریلو لڑائیوں پر فوکس ہے۔ اس میں کہانی کا سارا جھکاؤ شیزوفرینیا پر ہے۔ اس نفسیاتی عارضے کے بارے میں عام لوگوں میں جو غلط فہمیاں ہیں اسے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ناظرین کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس عارضے میں مبتلا لوگوں کے ساتھ کس طرح  کا برتاؤ رکھنا چاہئے۔ ایسے مریض نا تو تشدد پسند ہوتے ہیں اور نا ہی خطرناک بلکہ یہ جو کچھ بھی کررہے ہوتے ہیں وہ ان کے بس میں نہیں ہوتا۔

پریشان کن علامات کے باوجود اگر اس بیمار ی کا بروقت علاج کرلیا جائے تو مریض صحتیاب بھی ہوسکتا ہے۔اتنا سب کچھ ایک ڈرامے میں نا تو پہلے کبھی دکھایاگیا اور نا ہی ڈرامے کے ذریعے سمجھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سراب ڈرامے سے بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔

سراب کا موضوع انوکھا اور ہدایتکاری اعلیٰ

ایڈیسن ادریس مسیح کی اسکرپٹ کی داد دئیے بغیر سراب کا ذکر نامکمل ہوگا۔ جس مہارت سے، جس باریک بینی سے انہوں نے یہ ڈرامہ لکھا ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکتا تھا۔ انہوں نے کرداروں پر زور دیا اداکاروں پر نہیں۔ انہوں نے حالات و واقعات پر زور دیا ریٹنگ بڑھانے والے طریقوں پر نہیں۔

انہوں نے ہر ایک کردار کو ایسے پیش کیا جیسے وہ انہیں جانتے ہیں اور ان کے ساتھ وقت گزار چکے ہیں۔ ایک رائٹر کو اپنا ڈرامہ صحیح معنوں میں پہنچانے کے لئے ایک ماہر ہدایتکار چاہئے ہوتا ہے اور محسن طلعت نے اُن کی اس کاوش کو کامیاب بنانے میں بہت ساتھ دیا۔

 دونوں کی ٹیم نے جس طرح اس ڈرامے کو ڈیزائن کیا ہے وہ کمال ہے۔ ہر قسط کا اختتام کسی ایسے موقع پر ہوتا ہے کہ آپ اگلے ہفتے کا انتظار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ عکس بندی بھی کمال ہے اور او ایس ٹی بھی۔ لیکن سب سے عمدہ وہ سین ہیں جن میں کسی دوسرے کے نکتہ نظر سے یہ دکھایا جاتا ہے کہ حورعین خیالی انسان سے بات کررہی ہے جو اس کےسوا کسی اور کو نظر نہیں آتا۔

ڈرامے میں آگے جاکر سونیا حسین کے کردار حورعین کو ہسپتال میں داخل کیا جائے گا اور شائقین بے چین ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ ایک منجھی ۔ہوئی اداکارہ اپنی پرفارمنس کا لیول کہاں سے کہاں لے جائے گی۔

اس کہانی میں اداکاروں کا نہیں کردار وں کا کام نظر آرہا ہے

اس ڈرامے میں مرکزی کردار سونیا حسین ادا کررہی ہیں جو نہ صرف ایک صف اول کی اداکارہ ہیں بلکہ جو بھی کردار کرتی ہیں اس میں ڈوب جاتی ہیں۔ حورعین کا کردار ان کے یادگار ترین کرداروں میں سے ایک ہوگا کیونکہ اس کردار کی تیاری کے لئے انہوں نے ری ہیب سینٹرز کا  بھی دورہ کیا۔

اور ایسے لوگوں سے بھی ملیں جو شیزوفرینیا جیسے عارضے میں مبتلا ہیں یا  مبتلا رہے ہیں۔ اگر وہ اس کردار میں بہت زیادہ جان ڈالتیں تو پاگل معلوم ہوتیں۔ اسی لئے ان کی نپی تلی اداکارہ اس کردار کو یقین کے قابل بناتی ہے۔ خاص طور پر وہ سین جس میں وہ خیالی اسفندیار سے باتیں کررہی ہوتی ہیں، جو ان کے علاوہ کسی اور کو نظر نہیں آتا۔

 دوسری جانب سمیع خان نے کئی سینز میں بیک وقت 2 کیریکٹرز ادا کئے۔ ایک کی انٹری ہوتی تو دوسرا غائب ہوجاتا، ایک سین میں تو ایک بار دونوں اسفندیار نظر آئے تھے جس کو دیکھ کر ناظرین کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ نہ صرف اسفندیار  یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنی محبت کے لئے سب کچھ قربان کردے گا بلکہ اس کا خیال بھی رکھے گا اور اس کا علاج بھی کرائے گا۔

سمیع خان کے کردار  کو اتنا تابعدار، سمجھدار، اور نیک لڑکا دکھایا  گیا ہے کہ آپ بھی دعا کریں گے کہ آپ کی اولاد بھی اسی کے نقش قدم پر چلے۔

 عام ڈراموں کی طرح اس میں نہ تو کہانی کو ضرورت سے زیادہ طول دیا گیا ہے اور نہ ہی اس میں کچھ ایسا دکھایا گیا  ہے جس سے ایک ساتھ ٹی وی دیکھنے والے گھرانوں کو شرمندگی ہو۔ کوئی بھی ڈرامہ سینئیرز اور سپورٹنگ اداکاروں کے بغیر کامیاب نہیں ہوتا اور یہاں تو ہر ایک کردار کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔

اس سب کو جس عمدگی سے ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم نے عکس بند کیا وہ قابل تعریف ہے۔ ڈرامہ ہر جمعرات کو ہم ٹی وی پرنشر ہوتا ہے اور اگر اگلے سال اسے بہترین اداکار، ہدایتکاری اوررائٹر کی کیٹگری میں نامزد نہ کیا گیا تو اچھا کام کرنے والے لوگ مایوس، اچھی اداکاری کرنے والے نالاں اور اچھے ہدایتکار سا س بہو کی طرف واپس چلے جائیں گے۔ نقصان ناظرین کا ہوگا اور کچھ سکھانے والے ڈراموں کی جگہ دماغ خراب کرنے والے ڈرامے ٹی وی پر چلنے لگیں گے۔

متعلقہ تحاریر