لاہور ہائیکورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ عملدرآمد کا منتظر

لاہور ہائی کورٹ نے 27 جون کوئے الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کی 5 مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کوالاٹ کرنے کی ہدایت کی تھی، تاحال تحریری حکم جاری ہوا نہ الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عمل کیا، ایک عدالت دو فیصلوں پر عملدرآمد کی رفتار پر ناقدین کی تنقید

لاہورہائیکورٹ نے تحریک انصاف اور ق لیگ کی درخواستوں پر وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلیے ووٹوں کی دوبارہ گنتی آج ہی مکمل کرکے کل نئے وزیراعلیٰ سے حلف لینے کا حکم دے رکھا ہے لیکن  اسی لاہور ہائیکورٹ  نے تحریک انصاف کو 5 مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا حکم بھی دے رکھا ہےلیکن تاحال تحریری حکم نامہ جاری نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن نے بھی کئی روز گزرنے کے باوجود لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر پنجاب اسمبلی کی 5 مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو الاٹ کرنے  کے حکم پر عملدرآمد نہیں کیا۔ ناقدین نے ایک عدالت کے دو فیصلوں پر عملدرآمد کی صورت حال پر حیرت کا اظہار کردیا۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور ہائی کورٹ کا پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ ، حمزہ شہباز مشکل میں

ای سی پی کی نئی حلقہ بندیاں: قومی اسمبلی نشست کم ہو کر 336 رہ گئیں

لاہور ہائی کورٹ نے 27 جون کو پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کی 5 مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کوالاٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

پی ٹی آئی نے 20 خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات تک مخصوص اسمبلی نشستوں کے نوٹیفکیشن کے اجرا کو موخر کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے  2 جون کو فیصلہ دیا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں خواتین کی 3اور اقلیتوں کی 2 مخصوص نشستیں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعدالاٹ کی جائیں گی ۔یہ5مخصوص نشستیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی ٹی آئی کے25 منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے نتیجے میں خالی ہوئی تھیں۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے  لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کررکھی ہے۔مسلم لیگ ن نے اپنی انٹرا کورٹ اپیل میں کہا ہے  کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر فیصلہ جاری کیا۔ پارٹی نے موقف اختیار کیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا مخصوص نشستوں پر نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حکم خلاف قانون ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں نے ایک ہی عدالت کے مختلف احکامات پر عملدرآمدکی رفتار  پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر دو مختلف طریقوں سے عمل درآمد سے پنجاب میں سیاسی بحران ختم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرے گا۔

متعلقہ تحاریر