پاکستان میں کرونا ویکسین کی بلیک مارکیٹ کا انکشاف

ذرائع نے کا کہنا ہے کہ ’اب تک سرکاری ویکسین کے علاوہ کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے جس کے سبب بااثر شخصیات کو چوری چھپے غیرقانونی طور پر لگائی جارہی ہے۔‘

پاکستان میں کرونا کی وباء کی تیسری لہر کے باعث اموات اور کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کی قلت پیدا ہوگئی ہے لیکن کرونا ویکسین کی بلیک مارکیٹ کا انکشاف ہوا ہے۔

کرونا ویکسین قوم کی امانت

نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا تھا کہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین قوم کی امانت ہے۔ مگر پاکستان میں اب تک کئی افراد اس میں خیانت کر چکے ہیں اور کرونا ویکسین کی بلیک مارکیٹ کا انکشاف ہوا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی بیٹی اور داماد یعنی وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کی بھتیجی اور داماد، وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس طارق بشیر چیمہ اور اہل خانہ کے علاوہ اداکارہ عفت عمر، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافی عباس شبیر اور بعض دیگر بااثر شخصیات نے ویکسین کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر قوم کی اس امانت میں خیانت کی ہے۔

اشرافیہ کی من مانیاں

پاکستان میں جہاں اشرافیہ نے وطن عزیز کو اپنے قیام سے اب تک شیر مادر سمجھ کر نقصان پہنچایا ہے وہاں کرونا کی جان لیوا عالمی وباء کے دوران بھی اس طبقے نے روش نہیں بدلی اور تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معمر افراد کے لیے آنے والی کرونا ویکسین چوری چھپے اور حیلے بہانوں سے خود اور اپنے اہل خانہ کو لگوالی۔

پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں استحقاق نہ رکھنے کے باوجود ویکسینیشن کرانے سے متعلق اعتراض اٹھا تو کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی ایک مثال وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس طارق بشیر چیمہ ہیں۔

صرف سیاست دانوں پر ہی کیا موقوف بیوروکریٹس، بزنس مین، جاگیرداری، ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مالک، طاقتور اداروں کے کرتا دھرتا، بعض ججز اور صحافی تک غرض کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اشرافیہ کی سوچ رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے جو اختیار ملا ہے وہ امانت نہیں بلکہ ان اختیارات اور وسائل کو اپنی ذات کے لیے استعمال میں وہ حق بجانب ہیں۔

کرونا ویکسین، کورونا ویکسین
Xinhua

چوری اور سینہ زوری

اپنی باری کے بغیر کرونا ویکسین لگوانے کی جتنی بھی تصاویر اور ویڈیو اب تک سامنے آئی ہیں وہ خود ویکسین لگوانے والے خواتین و حضرات کی جانب سے سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی ہیں۔ شاید اسے بھی وہ اسٹیٹس سمبل سمجھتے ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ چوری اور سینہ زوری۔

باری کے بغیر ویکسین کہاں سے لگوائی جارہی ہے؟

نیوز 360 کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اب تک سرکاری ویکسین کے علاوہ کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے جس کے سبب چوری چھپے اور باری کے بغیر جو ویکسین لگوائی گئی ہے وہ سرکاری ویکسین کے ذخیرے سے ہی غیرقانونی طور پر حاصل کی گئی ہے جسے ’ویسٹیج‘ یا ضائع ہوجانے والی ویکسین میں ہی دکھا کر بااثر افراد کو لگایا جارہا ہے۔ بعض جگہ سرکاری کاغذات میں دکھایا جارہا ہے کہ یہ وہ ویکسین ہے جو درجہ حرارت برقرار نہ رکھے جانے کے سبب ضائع ہوگئی ہے۔

لاہور کے اسپتالوں سے ویکسین غائب ہونے کا انکشاف

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی کرونا کیسز کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ شہر میں کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کا کوئی ریکارڈ بھی موجود نہیں اور بڑے اسپتالوں میں مریضوں اور ہیلتھ ورکرز کے لیے موجود ویکسین غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیاستدانوں کے بعد صحافی بھی ویکسین پر ہاتھ صاف کرنے لگے

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی کرونا ویکسین کی بلیک مارکیٹ عروج پر ہے۔ محکمہ صحت کے باوثوق ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا کہ لاہور کے 3 بڑے اسپتالوں میں کرونا سے بچاؤ کی ویکسین غائب کر کے اعلیٰ شخصیات کو لگائی گئی ہیں۔ شیخ زید اسپتال، سروسز اسپتال اور جناح اسپتال سے کرونا ویکسین کی خوراکیں غائب ہوئی ہیں جو کہ سیاستدانوں، وزراء، سینیٹرز، بیوروکریٹس، اعلیٰ عدالتی اور کچھ اہم شخصیات کو گھروں میں جاکر ویکسین لگائی گئی ہے۔ کرونا ویکسین کا لاہور میں اس وقت ویکسین آنے کا ریکارڈ رو موجود ہے مگر کس کس کو اور کیسے لگائی گئی اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ تاحال 80 فیصد سے زیادہ ہیلتھ ورکرز کرونا ویکسین نہیں لگ سکی ہے۔

سروسز اسپتال میں کرونا کی 550 خوراکیں غائب ہیں جبکہ مزنگ اسپتال میں کرونا ویکسین کی 350 خوراکیں ضائع ہوگئی ہیں۔

محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سروسز اسپتال میں کرونا ویکسین کی 550 خوراکوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ سروسز اسپتال میں یہ معاملہ سابق ایم ایس سلیم چیمہ کے دور میں ہوا اور ویکسین کی 550 خوراکیں اہم لوگوں اور دوستوں کو لگادی گئی ہیں۔

اس حوالے سے سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (سمز) کے پرنسپل ڈاکٹر امجد کا کہنا ہے کہ ویکسین غائب نہیں ہوئی بلکہ ریکارڈ مرتب کرنے کا مسئلہ سامنے آیا ہے۔

امریکی ریاست ہوائی ویکسین
Xinhua

دوسری جانب وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ سروسز اسپتال کی کرونا ویکسین کی 550 خوراکوں کا آڈٹ کیا جارہا ہے۔ ویکسین کا کہاں استعمال ہوا؟ رپورٹ چند روز میں آجائے گی۔

ادھر سابق سابق ایم ایس سلیم چیمہ کا کہنا ہے کہ ویکسین کا تمام ریکارڈ موجود ہے۔ 4 روز تک این سی او سی کی ویب سائٹ پر ڈیٹا اپ لوڈ نہیں ہوسکا تھا۔

مزنگ اسپتال میں کرونا ویکسین کی 350 خوراکیں ضائع

ذرائع کے مطابق مزنگ اسپتال میں مناسب درجہ حرارت نہ ہونے پر کرونا ویکسین کی 350 خوراکیں ضائع ہوگئی ہیں۔ ویکسین کو 2 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر رکھنا تھا لیکن فریزر میں رکھ دی گئیں جس پر ویکسینز فریز ہوکرضائع ہوگئیں۔

مزنگ اسپتال میں ویکسین کی خوراکیں کیسے ضائع ہوئیں؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ’ویکسین ضائع ہونے پر انکوائری کے بعد ایم ایس کو معطل کردیا ہے۔‘

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے سروسز اسپتال میں کورونا ویکسین کی بعض خوراکیں غائب اور مزنگ ہسپتال میں کورونا ویکسین کی بعض خوراکیں ضائع ہونے پرسخت نوٹس لیتے ہوئے محکمہ صحت سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور غیرجانبدارانہ انکوائری کاحکم دیا ہے۔

طارق چیمہ کے اہل خانہ کی ویکسینیشن پر انکوائری

گذشتہ دنوں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس طارق بشیر چیمہ کی رہائش گاہ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وفاقی وزیر کے اہل خانہ کو کرونا کی ویکسین لگواتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ یہ ویڈیو سب سے پہلے نوال طارق چیمہ کے انسٹاگرام پر شیئر کی گئی لیکن بعد میں اس اکاؤنٹ کو ہی بند کردیا گیا۔

طارق بشیر چیمہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے خاندان کو کین سائنو ویکسین لگائی گئی جو ابھی ٹرائل (آزمائش) میں ہے۔ تاہم وزیر صحت پنجاب کا کہنا ہے کہ ’طارق بشیر چیمہ کے اہلخانہ کو ویکسین لگانے کی منظوری نہیں دی اور حکومت پنجاب کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘

وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور ڈاکٹر جاوید اکرام کا کہنا ہے کہ ’طارق بشیر چیمہ کے اہل خانہ کو ہم نے ویکسین نہیں لگائی۔ ہمارے پاس ویکسین ہے ہی نہیں تو لگا کس طرح سکتے ہیں؟‘

دوسری طرف این سی او سی نے وفاقی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس طارق بشیر چیمہ کے اہل خانہ کو کرونا کی ویکسین لگانے کی انکوائری کا فیصلہ کیا ہے۔

کم عمر لوگ ویکسین لگوا رہے ہیں، اسد عمر

دو روز قبل ایک نجی ٹی وی کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے کہا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے دیگر واقعات بھی ہو رہے ہیں جہاں کم عمر لوگ ویکسین لگوا رہے ہیں اور اپنا اندراج ہیلتھ ورکرز میں کروا رہے ہیں۔ اس بات کو متعدد بار این سی او سی کے اجلاس میں بھی اٹھا چکے ہیں۔

کرونا پابندیوں
DAWN

انہوں نے بتایا کہ این سی او سی کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ اس بات کی تحقیق کی جائے کہ ویکسین اسلام آباد میں لگائی گئی یا ایسا پنجاب میں ہوا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگر یہ واقعہ پنجاب میں ہوا تو صوبائی حکومت کارروائی کرے گی تاہم اگر یہ ویکسین اسلام آباد میں لگائی گئی ہے تو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور سیکریٹری صحت عامر اشرف خواجہ کارروائی کریں گے۔

کرونا ویکسین کسے لگ رہی ہے؟

حکومت پاکستان نے جو قواعد طے کیے ہیں ان کے مطابق ابتدائی مراحل میں ہیلتھ ورکرز اور معمر افراد کو ویکسین دی جارہی ہے جن میں 60 سال تک کی یا اُس سے زیادہ عمر کے افراد شامل ہیں ۔50 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی رجسٹریشن کا آغاز کردیا گیا ہے جنہیں جلد ہی ویکسین فراہم کی جائے گی۔

سب کو بیک وقت ویکسین کی فراہمی ممکن نہیں

حکومت وضاحت کر چکی ہے کہ کرونا ویکسین محدود تعداد میں دستیاب ہے جس کے سبب تمام پاکستانیوں کو بیک وقت ویکسین فراہم نہیں کی جا سکتی اس لیے معمر افراد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

پاکستان میں ویکسین برائے فروخت نہیں

پاکستان میں اب تک کرونا کی وباء سے بچاؤ ویکسین سرکاری یا نجی سطح پر فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہے تاہم بااثر افراد کو یہ ویکسین بلیک مارکیٹ کے ذریعے لگائی جارہی ہیں۔ این سی او سی کے مطابق ہیلتھ ورکرز اور معمر افراد کو کرونا ویکسین بلامعاوضہ فراہم کی جا رہی ہے تاہم نجی دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے فروخت کے لیے ویکسین درآمد کی جا رہی ہے۔ البتہ دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے درآمد شدہ کرونا ویکسینز کی قیمتوں کا تعین ابھی تک نہیں کیا جاسکا ہے۔

کرونا ویکسین کی قیمت کی منظوری کابینہ دے گی

ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) ملک میں ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے والا ادارے ہے جس کی جانب سے روسی ویکسین اسپٹنک کی دو خوراکوں کی قیمت 8 ہزار 449 روپے جبکہ ایک خوراک پر مشتمل چینی ساختہ ویکسین کو نویڈیشیا ویکسین کی قیمت 4 ہزار 225 روپے منظوری کے لیے کابینہ کے پاس بھیجی گئی ہے۔

کرونا ویکسین
Xinhua

تاہم ویکسینز درآمد کرنے والی نجی کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ویکسین زیادہ قیمت میں درآمد کی گئی ہے جس کے بعد کابینہ نے ڈریپ کو ان قیمتوں پر نظرثانی کی ہدایت کی ہے۔

ویکسین کی قیمت کا تعین کیسے ہوگا؟

ڈریپ کے ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا کہ ’کرونا ویکسین کی حتمی قیمت کمپنی کی جانب سے ویکسین کی درآمد پر آنے والی قیمت، جمع 40 فیصد مارک اپ ریٹ یعنی منافع ہوگی۔ جبکہ بڑے پیمانے پر درآمد اور مقامی طور پر پیک ہونے والی ویکسین کی قیمت کمپنی کی جانب سے ویکسین کی درآمد پر آنے والی قیمت، جمع 40 فیصد مارک اپ، جمع اس کی پیکنگ پر آنے والی لاگت ہوگی۔‘

ویکسین عام میڈیکل اسٹورز پر دستیاب نہیں ہوگی

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق کرونا سے بچاؤ کی ویکسین عام میڈیکل اسٹورز پر دستیاب نہیں ہوگی بلکہ صرف منظور شدہ مخصوص اسپتالوں میں ہی یہ ویکسین لگائی جائے گی۔

اب تک کتنی ویکسین پاکستان پہنچ چکی ہے؟

این سی او سی کے ذرائع کے مطابق سرکاری سطح پر اب تک پاکستان میں مختلف مراحل میں کرونا ویکسین کی 20 لاکھ 60 ہزار خوراکیں پہنچ چکی ہیں جن میں سے 15 لاکھ ویکسین ہمیں بطور عطیہ ملی ہے۔

نجی شعبے میں ویکسین کی فروخت ابھی شروع نہیں ہوئی

ڈریپ نے سرکاری سطح پر سائنوفام ویکسین کی منظوری دی تھی جبکہ نجی شعبت کے تحت ڈریپ نے تین کرونا ویکسینز کی منظوری دی ہے جن میں ایسٹرا زینیکا، اسپٹنک اور کین سائنو شامل ہیں۔

ایسٹرا زینیکا کی سندھ میڈیکل اسٹورز نے منظوری حاصل کی ہے جس کی ویکسین ابھی پاکستان نہیں پہنچی ہے۔ اسپٹنک ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں علی گوہر فارما (اے جی پی) کی جانب سے منگوائی جاچکی ہیں جن کی قیمت کا ابھی تعین نہیں ہوسکا ہے۔ جبکہ ملٹی نیشنل فارما سوٹیکل کمپنی اے جے ایم، کین سائنو کی سنگل ڈوز والی 10 ہزار خوراکیں درآمد کررہے ہیں جو پہلے 25 مارچ اور پھر 29 مارچ کو پہنچنی تھی مگر اب تک پاکستان نہیں پہنچی۔ توقع ہے کہ یہ ویکسین ایک دو روز میں پاکستان پہنچ جائے گی۔

عوام انصاف کے منتظر ہیں

پاکستان میں کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کی بلیک مارکیٹ کے معاملے پر عوام منتظر ہیں کہ بدعنوانی کے مرتکب سرکاری اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کے علاوہ اپنی باری کے بغیر اثر و رسوخ استعمال کر کے ویکسین لگانے والے افراد کا بھی احتساب کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی سرکاری وسائل میں نقب نہ لگا سکے جو قوم کی امانت ہیں۔

اس خبر کی تیاری میں نیوز 360 کے اسلام آباد کے نامہ نگار جاوید نور اور لاہور کے نامہ نگار دانیال راٹھور نے حصہ لیا ہے۔

متعلقہ تحاریر