این آئی سی وی ڈی میں عہدوں کی بندر بانٹ
15 لاکھ سے زیادہ تنخواہ والے اُمیدواروں نے بھرتی کے لیے ٹیسٹ دیا اور نہ ہی درخواست
پاکستان کے قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی میں غیرقانونی بھرتیوں اور ٹھیکوں کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف آپریٹنگ افسر عزرا مقصود اور کنسلٹنٹ حیدر اعوان سے نیب نے تین تین گھنٹے تحقیقات کی ہے۔ 15 لاکھ سے زیادہ تنخواہ والے اُمیدوار حیدر اعوان نے چشم کشا انکشافات کیے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ بھرتی کے لیے ٹیسٹ دیا نا اور نہ ہی درخواست۔
حیدراعوان کو بغیر درخواست دیے تنخواہ اور الاؤنس کی مد میں 15 لاکھ روپے ماہانہ پر بھرتی کیا گیا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ 2015ء میں ڈاکٹر ندیم قمر نے فون کر کے اُنہیں ملازمت شروع کرنے کو کہا تھا۔
نیوز 360 کے ذرائع کے مطابق کنسلٹنٹ حیدراعوان ڈاکٹر نہیں ہیں۔ انہوں نے بی اے آرٹس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ حیدر اعوان کا اپریل 2020ء میں کانٹریکٹ ختم ہوا لیکن تنخواہیں جاری ہیں۔
کنسلٹنٹ حیدر اعوان نے تحقیقاتی حکام کو بیان دیا کہ اُن کا کانٹریکٹ ختم ہونے کے باوجود تنخواہ کیوں دی جاری ہے؟ یہ ڈاکٹر ندیم قمر اور انتظامیہ سے پوچھیں۔
ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ادارہ برائے امراض قلب کی چیف آپریٹنگ افسر عزرا مقصود کو سندھ کلب میں اعشائیہ پر بلا کر بھرتی کی پیشکش کی گئی تھی۔ عزرا مقصود نے تحقیقاتی حکام کو بتایا کہ ان کا اسپتال انتظامیہ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ انہیں اِس عہدے کی گریڈ 20 کی آسامی پر 2015ء میں ایڈہاک بنیاد پر بھرتی کر کے 6 ماہ میں مستقل کیا گیا تھا۔
حیدر اعوان کو بی اے آرٹس کے باوجود ادارے کے ‘کنسلٹنٹ’ پر بھرتی کیا گیا۔ حیدراعوان نے تحقیقات میں انکشاف کیا کہ انہیں تنخواہیں خیراتی فنڈز سے دی جارہی ہیں۔ حیدر اعوان نیب تحریری ہدایات کے باوجود اپنی بی اے کی اسناد اور کنسلٹنسی کی رپورٹس پیش کرنے میں ناکام رہے۔ حیدراعوان اور عزرا مقصود نے مزید ریکارڈ دینے کے لیے نیب سے 2 ہفتوں کا وقت مانگا ہے۔
نیب نے این آئی سی وی ڈی میں مزید اعلیٰ عہدیداروں کو طلب کر کے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے چیف آپریٹنگ افسر کے عہدے پر تعینات عزرا مقصود اور کنسلٹنٹ حیدر اعوان کو تحقیقات کے لیے طلب کیا تھا۔ نیب نے اب تک ڈائریکٹر ایچ آر داور حسین، چیف آپریٹنگ افسر عزرا مقصود اور کنسلٹنٹ حیدر اعوان سے ابتدائی تحقیقات مکمل کرلی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سندھ کے سرکاری بس اڈوں پر نجی ٹرانسپورٹرز کاقبضہ
ذرائع کے مطابق کراچی دل کی بیماری کے سب سے بڑے اسپتال میں بڑی سیاست ہو رہی ہے۔ این آئی سی وی وی ڈی کے ڈائریکٹرپروفسیر ندیم قمر اورہیڈآف کارڈیک سرجری پروفیسر پرویز چوہدری کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ ڈائریکٹر ہیڈ آف کارڈیک سرجری نے برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو مختلف شعبوں کے بارے میں کیوں بتایا؟
سرجری پروفیسر پرویز چوہدری کا کہنا ہے کہ ‘نیب اگر کارڈیو اسپتال میں چھاپے مار رہی ہے یا تفصیلات لے رہی ہے تو میرا کیا قصور ہے؟۔ کارڈیو اسپتال میں دل کی جدید سرجری کر کے اس کا معیار دنیا میں بلند کیا۔ مجھے یہ صلا مل رہا ہے۔ پریس کانفرنس میں اہم انکشاف کروں گا جس کا کسی کو معلوم ہی نہیں ہوگا’۔
پروفیسر پرویز چوہدری امریکا سے تربیت یافتہ ہیں۔ وہ این آئی سی وی ڈی میں لیفٹ وینٹریکل اسسٹ ڈیوائس پروگرام شروع کرنے والے سرجن ہیں۔ دل کے اسپتال میں دوبڑے افسران کی لڑائی پر طبی عملہ بھی دو گروپس میں تقسیم ہوگیا۔ اسپتال میں اس سے قبل بھی مختلف ہیڈآف ڈپارٹمنٹ کو ہٹایا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب نیب کے مسلسل چھاپوں سے پورے اسپتال میں سیاست عروج پر پہنچ چکی ہے۔
دوسری جانب اسپتال کے سربراہ کے سابق اسٹاف آفیسر کی جانب سے جاری کردہ شوکاز سامنے آگیا۔ شوکاز کنسلٹنٹ حیدر اعوان کو دیا گیا۔ نوٹس میں انہیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کا کہا گیا۔
شوکاز نوٹس کے مطابق حیدر اعوان فنڈز کا غیرضروری استعمال اور غیر قانونی تقرریاں کر رہے ہیں۔ حیدر اعوان غیرقانونی طور پر اسپتال کے سربراہ کی اسٹمپ استعمال کر رہے ہیں۔ حیدر اعوان شعبہ ہیومن ریسورس اور ایڈمن کے شعبے میں بےجا مداخلت کر رہے ہیں۔ کنسلٹنٹ حیدر اعوان ادارے کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر طارق شیخ نے کہا کہ اس شوکاز لیٹر دینے کے بعد مجھے گھوسٹ ملازم کہہ کر نکال دیا گیا۔ میں نے شوکاز لیٹر ایگزیکٹو ڈائریکٹر قومی ادارہ برائے امراض قلب کے توسط سے دیا۔
جبکہ اسپتال حکام کا کہنا ہے کہ یہ شوکاز لیٹر جعلی ہے، اس کا نوٹس ایگزیکٹو ڈائریکٹر لے چکے ہیں۔ ڈاکٹر طارق شیخ کو شوکاز دینے کا اختیار نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیے