پاکستان کی ایک تہائی آبادی غذائی قلت کا شکار
گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان میں 37 فیصد بچے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
پاکستان کی ایک تہائی آبادی غذائی کمی کا شکار ہے۔ جبکہ ڈیڑھ کروڑ بچوں کے قد چھوٹے اور جسم لاغر ہیں۔
گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان میں 7 کروڑ افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑ بچے غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے قد میں چھوٹے ہیں۔ ان کے جسم لاغر ہیں اورجسامت اتنی نہیں جتنی ہونی چاہیے۔ اگر پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورتحال اسی طرح سنگین رہی تو مستقبل کی نسلیں کمزور، لاغر اور صحت کے خدشات سے دور چار ہوجائیں گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے انسانی اورمعاشی ترقی متاثر ہوگی۔ اس سے ملکی سالمیت کو بھی خطرات درپیش ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ حکومت، پرائیویٹ سیکٹر، سول سوسائٹی، عوام اورافراد کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس بحران سے بچا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیے
رپورٹ کے مطابق ہر کسی کو آئندہ 5 سالوں کے دوران حکمت عملی میں موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ کرونا وباء کے باعث پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔
غذائی اجناس کی نقل و حمل نہ ہونے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ اورلوگوں کے ذرائع آمدن میں خطرناک حد تک کمی کی وجہ سے لاکھوں پاکستانی متاثر ہورہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں غربت کی سطح سے نیچے جانے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک کرونا کی وباء ہے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 5 سال سے کم عمرکے ایک کروڑ 70 لاکھ بچوں کو ہر سال ویکسین فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔ کرونا کی وباء کی وجہ سے ان کی صحت کو زیادہ خطرات درپیش ہیں۔
گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق عالمی سطح پر 690 ملین افراد غذائی کمی کا شکار ہیں۔ 144 ملین بچے اپنی عمرکے لحاظ سے چھوٹے قد کے ہیں۔ 47 ملین بچوں کو انتہائی کم غذاء میسر ہے۔
جبکہ 2018ء میں 5.3 ملین بچے اپنی سالگرہ سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔ اگرچہ سن 2000ء سے عالمی سطح پر بھوک میں کمی آئی ہے۔ تاہم بہت سی جگہوں پراس کی رفتار بہت سست ہے جہاں شدید غربت ہے۔ ان ممالک میں غذاء اور غذائیت کا عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 2020ء میں صحت، معیشت اور ماحول کا بھی بحران پیدا ہورہا ہے۔ غذائی بحران اوربھوک سے تحفظ کے لیے ممالک حکومتوں اور افراد کو جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔
انہیں غذاء، صحت اور معاشی نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ غذائی پیداوار اور تقسیم کو منصفانہ انداز میں ترتیب دینا ہوگا تاکہ بحران سے بچا جا سکے۔