ارشد شریف کی بیوہ نے شوہر کے ’ٹارگٹڈ قتل‘ پر کینیا کی عدالت سے رجوع کر لیا

کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے اپنے شوہر کے ’ٹارگٹڈ قتل‘ پر کینیا کی حکومت کے خلاف نیروبی کی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے کہا ہے کہ ’انھوں نے یہ اس لیے کیا کیونکہ ان کے شوہر کے قتل کے واقعے میں کینیا کی پولیس کے اہلکار ملوث تھے اور ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ارشد شریف کو انصاف دیا جائے۔‘

پاکستانی صحافی ارشد شریف 23 اکتوبر کی رات کینیا کے علاقے مگاڈی میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اُن کی موت کو تقریباً ایک سال گزرنے کو ہے تاہم تاحال ان کی ہلاکت کے ذمہ داران کو سزا نہیں دی گئی۔

جویریہ کے مطابق وہ چاہتی ہیں کہ ’ان کے شوہر کی ہلاکت میں ملوث ذمہ داران کو گرفتار کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور کینیا کے متعلقہ حکام عوامی سطح پر ان سے معافی مانگیں۔‘

یاد رہے کہ ارشد شریف کے قتل کے بعد کینیا کی پولیس کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔

جویریہ کا کہنا ہے کہ ’وہ اسے شناخت میں غلط فہمی کہتے ہیں مگر میں اسے ’منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ٹارگٹڈ قتل‘ مانتی ہوں۔ ارشد کو جو دھمکی پاکستان میں ملی تھی وہ پوری کینیا میں ہوئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وجہ جو بھی رہی ہو لیکن اگر وہ ارشد کے قتل کی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں تو انھیں سزائیں بھی دی جانی چاہییں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں امید کرتی ہوں کہ کینیا کی عدالتیں ہمیں انصاف دیں گی۔‘

ان کے مطابق ’اس کیس میں کینیا کی حکومت کا رویہ اچھا نہیں رہا اور انھوں نے ہماری کسی بھی درخواست کا جواب نہیں دیا۔‘

اس مقدمے میں کینیا یونین آف جرنلسٹ اور کینیا کارسپانڈٹ اسوسی ایشن کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

جویریہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ تین مہینوں سے سپریم کورٹ میں ارشد شریف کے کیس کی سماعت ہی نہیں ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ کینیا سے بات کرنا اور ارشد کے قتل میں ملوث افراد کو سزا دلوانا ناممکن ہے جبکہ طریقہ کار موجود تھا۔

’میں نے اپنے وکیل کے ذریعے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں تفصیلی جواب بھی جمع کروایا کہ کیا آپشنز دستیاب ہیں لیکن اس کے بعد تین مہینے سے اس مقدمے کی سماعت ہی نہیں ہوئی۔‘

جویریہ کا کہنا ہے کہ ’جب ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں ہم اپنی مرضی کی ایف آئی آر تک درج نہیں کروا سکتے تو انصاف کیا ملے گا۔ تو اس صورتحال میں صحافیوں کی عالمی تنظیموں کی مدد سے میں نے وکیل کی خدمات حاصل کیں اور وہاں کی ہائیکورٹ میں یہ مقدمہ فائل کیا ہے۔‘

 

متعلقہ تحاریر