انضمام الحق ’مفادات کے ٹکراؤ‘ کے الزام پر مستعفی: ’کسی پر بھی ایسے الزامات لگیں تو دُکھ ہوتا ہے‘

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ورلڈ کپ کے دوران اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے اور اپنے اوپر مفادات کے ٹکراؤ سے متعلق الزامات پر دُکھ ظاہر کیا ہے۔

انضمام نے سما ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ اپنے خلاف مفادات کے ٹکراؤ پر قائم کمیٹی کی تحقیقات تک عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر میرے پر سوال اٹھے گا تو بہتر ہے کہ میں سائیڈ پر ہوجاؤں۔۔۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔‘

انضمام نے مزید کہا کہ ’لوگ بغیر تحقیق کے ایسی باتیں کرتے ہیں۔ جس نے بات کی ہے اسے ثبوت بھی دینے چاہییں۔۔۔ کسی پر بھی ایسے الزامات لگیں تو دُکھ ہوتا ہے۔‘

پی سی بی کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میڈیا پر گذشتہ کئی دنوں سے یہ باتیں زیرِ بحث تھیں کہ انضمام بطور چیف سلیکٹر کھلاڑیوں کے ایجنٹس کی ایک کمپنی میں شیئر ہولڈر ہیں جس سے مفادات کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے اور بورڈ نے اس سارے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے ذریعے آئندہ دنوں میں حقائق سامنے آجائیں گے۔

ان کے مطابق انضمام نے خود اپنا استعفیٰ پیش کیا اور اگر ان کا نام کلیئر ہو جاتا ہے تو وہ اس عہدے پر دوبارہ آ جائیں گے۔

دریں اثنا پی سی بی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کے انتخاب کے عمل سے متعلق میڈیا میں رپورٹ ہونے والے مفادات کے ٹکراؤ کے حوالے سے الزامات کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل کی ہے۔

’کمیٹی اپنی رپورٹ اور سفارشات پی سی بی کی انتظامیہ کو جلد پیش کرے گی۔‘

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق کو 7 اگست 2023 کو قومی مینز سلیکشن کمیٹی کا چیف سلیکٹر مقرر کیا گیا تھا اور رواں ماہ کے شروع میں انھیں جونیئر مینز سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے
بابر کا مقابلہ بنگلہ دیش کے بارہویں کھلاڑی سے ہے، سمیع چوہدری کا کالم
30 اکتوبر 2023
اگر مگر کا کھیل، کیا پاکستان اب بھی سیمی فائنل تک پہنچ سکتا ہے؟
30 اکتوبر 2023
’خراب امپائرنگ اور خراب قواعد پاکستان کی شکست کی وجہ بنے‘: ہربھجن کے شکوے پر گریم کا جواب شکوہ
28 اکتوبر 2023
بابر اعظم،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
انضمام الحق کا یہ استعفیٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب بابر اعظم کی گفتگو سے متعلق ایک مبینہ واٹس ایپ سکرین شاٹ لیک کرنے کی مذمت کی جا رہی ہے

انضمام پر مفادات کے ٹکراؤ کا کیا الزام ہے؟
پاکستانی کرکٹ ٹیم پر جہاں ورلڈ کپ میں لگاتار چار میچوں میں شکست پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں یہ معاملہ بھی زیر بحث رہا ہے کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق پلیئرز مینجمینٹ کی ایک کمپنی ’یازو انٹرنیشنل لمیٹڈ‘ کے شیئر ہولڈرز میں شامل ہیں جس سے مفادات کے ٹکراؤ کا امکان پیدا ہوتا ہے۔

گذشتہ روز چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف سے اے آر وائی کو دیے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ پلیئرز ایجنٹ طلحہ رحمانی کی کمپنی میں انضمام شیئر ہولڈر ہیں اور ٹیم کے آٹھ کھلاڑیوں کو وہ مینج کرتے ہیں تو کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

ذکا اشرف نے جواب دیا تھا کہ ’یہ بظاہر مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ ہم نے سوچا ہے چیف سلیکٹر کو بُلا کر وضاحت مانگیں گے۔۔۔ اگر سات، آٹھ کھلاڑی قابو کیے ہوئے ہیں تو پھر سلیکشن بھی وہی کروا رہا ہو گا۔‘

چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ بورڈ میں ایک نیا قانون لانا ہو گا کہ کسی ایجنٹ کے پاس دو سے زیادہ کھلاڑی نہ ہوں۔ ’ایسے تو یہ ٹیم سلیکشن ہونے نہیں دیں گے، یہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔‘

ذکا اشرف،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
ذکا اشرف نے کہا ہے کہ ایک ہی کمپنی کے ایجنٹ کے پاس ٹیم کے آٹھ کھلاڑی ہونا ’بظاہر مفادات کا ٹکراؤ ہے‘

مواد پر جائیں
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں
مواد پر جائیں
پلیئرز ایجنٹ طلحہ رحمانی سایہ کارپوریشن کے سربراہ بھی ہیں جس کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک ایتھلیٹ مینجمینٹ کمپنی ہے جسے سنہ 2014 میں قائم کیا گیا اور یہ ’پاکستان نیشنل ٹیم کے 70 فیصد حصے کی نمائندگی کرتی ہے‘ جس میں کپتان بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی اور فخر زمان شامل ہیں۔

برطانوی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق طلحہ رحمانی کی ایک دوسری کمپنی یازو انٹرنیشنل لمیٹڈ میں انضمام الحق اور محمد رضوان شیئر ہولڈرز ہیں۔

دوسری طرف سایہ کارپوریشن کے مطابق اس کمپنی میں کسی بھی موجودہ یا سابقہ کھلاڑی کے شیئرز نہیں ہیں اور ’ہم آمدن یا ڈیویڈنٹس کھلاڑیوں کے ساتھ شیئر نہیں کرتے۔‘

30 اکتوبر کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں سایہ کارپوریشن نے کہا کہ اس کا سرمایہ کاری کا ونگ کھلاڑیوں کی مالی خوشحالی کے لیے اقدامات کرتا ہے اور لوگوں کو کاروباری شراکت کا حق حاصل ہے۔

اس کے مطابق سایہ کارپوریشن پی سی بی سے کھلاڑیوں کی آمدن میں حصہ وصول نہیں کرتی، جس میں کھلاڑیوں کی تنخواہیں، (ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی) میچ فیس اور پی ایس ایل کے معاہدے شامل ہوتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یازو انٹرنیشنل لمٹڈ یو کے کو دسمبر 2020 میں قائم کیا گیا۔ یہ نجی ای کامرس کمپنی ہے جس نے پاکستان میں ٹیکس ریٹرن ظاہر کیے ہیں اور اس کی جانب سے مالی شفافیت کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔‘

سایہ کارپوریشن نے غلط معلومات پھیلائے جانے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ قانونی کارروائی کا حق رکھتے ہیں۔

’انضمام نے بہت اچھا فیصلہ کیا‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے ذرائع نے بتایا کہ آج بورڈ نے تفصیل سے انضمام سے گفتگو کی اور اس کے بعد انھوں نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔

ان کے مطابق ورلڈ کپ کے دوران فوری طور پر نئے چیف سلیکٹر کی ضرورت نہیں اور کچھ دنوں میں یہ معاملات واضح ہو جائیں گے جس کے بعد انضمام دوبارہ اس عہدے پر آ سکتے ہیں۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پی سی بی کے ذرائع نے کہا کہ بابر اعظم اور چیئرمین پی سی بی کے درمیان سرد مہری کی خبریں جھوٹ پر مبنی تھیں جس کی وجہ سے ذکا اشرف پر دباؤ پیدا ہوا اور انھوں نے ایک انٹرویو کے ذریعے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔

یاد رہے کہ یہ وہی انٹرویو ہے جس کے بعد کپتان بابر اعظم کی واٹس ایپ گفتگو کا ایک مبینہ سکرین شاٹ سامنے آیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے گذشتہ دنوں چیئرمین سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ سابق کپتان راشد لطیف نے پی ٹی وی پر ایک شو کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ چیئرمین بورڈ ذکا اشرف ’بابر اعظم کے پیغامات کا جواب نہیں دے رہے۔‘

بورڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی پلیئرز ایجنٹ کے معاملے پر سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔ ’اب پلیئرز بہت زیادہ ایجنٹس کے ذریعے کام کر رہے ہیں تو اس بارے میں بھی کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔‘

بعض سابق کھلاڑیوں نے انضمام کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے اور ان سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

سابق کپتان شاہد آفریدی نے انضمام کے اس فیصلے کو ’زبردست‘ قرار دیا اور کہا ہے کہ اگر ان کے خلاف تحقیقات میں کچھ سامنے نہیں آتا تو وہ اس کرسی پر واپس آ سکتے ہیں۔

سما ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے سابق سپنر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ فیصلہ عزت کی بنیاد پر لیا گیا کیونکہ حالیہ عرصے میں میڈیا پر لوگوں نے انضمام کے بارے میں بہت سی باتیں کی ہیں۔

’وہ پاکستان کے کپتان رہ چکے ہیں اور انھوں نے پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز کیے ہیں۔ وہ چیف سلیکٹر بن کر پاکستان کی خدمت کرنے آئے تھے۔ آپ کارکردگی پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن ذاتی زندگی پر حملوں سے انزی ہرٹ ہوا ہے۔‘

 

متعلقہ تحاریر