ڈیڑھ ماہ کی جنگ کے بعد یرغمالیوں کی رہائی پر معاہدہ اور ’لڑائی میں وقفہ‘، ’حماس پچاس یرغمالیوں کو اگلے چار روز کے دوران رہا کرے گا‘

لگ بھگ ڈیڑھ ماہ کی خون ریز جنگ کے بعد اسرائیلی کابینہ نے عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں اس معاہدے کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ حماس پچاس یرغمالیوں کو اگلے چار روز کے دوران رہا کرے گا اور اس دوران لڑائی میں وقفہ ہو گا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان قطر کی ثالثی کی کوششوں نے گذشتہ چند دنوں میں زور پکڑا تھا جس کے باعث یہ عارضی جنگ بندی ممکن ہوئی ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آئندہ ہر 10 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر لڑائی میں ایک روز کا وقفہ دیا جائے گا۔

حماس نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ مشکل اور پیچیدہ مذاکرات کے بعد قطر اور مصر کی سرپرستی میں چار دن کے لیے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ گئی ہے۔

بی بی سی عربی کے مطابق حماس نے کہا ہے کہ معاہدے کے مطابق غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی آپریشن روک دیا جائے گا اور غزہ کے تمام علاقوں میں انسانی اور امدادی امداد کے سینکڑوں ٹرک پہنچائے جائیں گے۔

تاہم تاحال یہ واضح نہیں کہ حماس کو اس عارضی جنگ بندی سے کیا حاصل ہو گا اور کیا اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا تاہم یہ یقیناً کئی ہفتوں کی جنگ کے بعد غزہ کے باسیوں کے لیے سکھ کی ایک گھڑی جیسا ہو گا۔

خیال رہے کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے گذشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہم معاہدے کے قریب ہیں‘ جبکہ امریکہ میں اسرائیلی سفیر، مائیکل ہرزوگ نے کہا تھا کہ ’اسرائیل اگلے چند دن میں حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی ایک بڑی تعداد کو آزاد کرنے کی امید رکھتا ہے۔‘

ادھر وائٹ ہاؤس کے سٹریٹجک کمیونیکیشنز کوآرڈینیٹر جان کربی کہتے ہیں کہ ممکنہ یرغمالیوں کی رہائی میں ’سب سے پہلی چیز جس کی ضرورت ہو گی وہ یہ کہ کسی قسم کا محفوظ راستہ فراہم کیا جائے جس کے ذریعے انھیں حراست سے نکال کر اسرائیل پہنچایا جا سکے۔‘

gaza،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
جنگ بندی کے بعد کیا ہوگا؟
خیال رہے کہ نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچوں سمیت 50 یرغمالیوں کو چار دنوں کے دوران رہا کر دیا جائے گا اور اس دوران لڑائی رک جائے گی۔

گذشتہ روز وائس آف امریکہ ریڈیو کے مطابق واشنگٹن میں اسرائیل کے سفیر نے لڑائی میں وفقے کو جنگ بندی کہنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اسرائیل عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد حماس کے اہداف پر دوبارہ حملے شروع کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ’ہمارا مقصد جنگ کو عارضی طور پر روکنا نہیں، بلکہ مقصد اس جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہو گا۔‘

بائیڈن نے جنگ بندی سے آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ’دو ریاستی حل ہی اسرائیلی اور فلسطینی عوام دونوں کے لیے طویل المدتی سلامتی کی ضمانت دینے کا واحد راستہ ہے۔۔۔ موجودہ بحران نے اس حل کو ناگزیر بنا دیا ہے۔‘

بائیڈن کے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے، ایرون ڈیوڈ ملر، جو کہ امریکی محکمہ خارجہ کے سابق مشیر اور فلسطین اسرائیل تنازعے کے ماہر ہیں، نے کہا کہ ’اگر یہ خون جو اس جنگ میں بہایا گیا، کسی چیز کی نشاندہی کرتا ہے، تو وہ یہ ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی ایک ساتھ پرامن طریقے سے نہیں رہ سکتے۔‘

ملر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) کے ذریعے کہا تھا کہ ’اس مسئلے کو حل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان علیحدگی پر بات چیت کی جائے، جس کا حصول انتہائی مشکل ہو گا۔‘

اسرائیل،تصویر کا ذریعہREUTERS
جنگ ختم ہونے کے بعد کیا ہو گا؟
برطانوی میگزین دی اکانومسٹ کے مطابق ’غزہ تقریباً دو دہائیوں تک ایک حل طلب مسئلہ رہا، یہاں تک کہ 7 اکتوبر کی صبح جنگ شروع ہو گئی، جس نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔‘

تاہم، دیگر افراد غزہ کی جنگ کو ایک بار اور ہمیشہ کے لیے تنازعہ کو حل کرنے کے راستے اور موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس سانحے کو ایک موقعے میں تبدیل کرنے کے بارے میں بات کی ہے۔

گوتریس نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ایسا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جنگ کے بعد ہم دو ریاستی حل کی راہ پر مضبوطی سے قدم بڑھائیں۔‘

دی اکانومسٹ کے مطابق امریکہ کو امید ہے کہ موجودہ جنگ کے خاتمے کے بعد عرب ممالک غزہ میں ایک امن فوج کا حصہ بنیں گے۔ اس تجویز کو متعدد اسرائیلی حکام کی حمایت حاصل ہے لیکن اب تک یہ واضح نہیں کہ عرب دنیا کے ممالک اس تجویز کا خیر مقدم کریں گے یا نہیں۔

اس حوالے سے اردن کے وزیر خارجہ نے گذشتہ ہفتے ایک ڈائیلاگ فورم میں کہا تھا کہ ’کوئی عرب افواج غزہ کی پٹی میں داخل نہیں ہوں گی۔۔۔ ہمیں دشمن کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا۔‘

دی اکانومسٹ کا خیال ہے کہ عربوں کا یہ موقف قابل فہم ہے کیوں کہ وہ اسرائیل کے اقدامات کے نتائج کو برداشت نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی وہ غزہ کی پٹی پر دوبارہ قبضہ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

 

متعلقہ تحاریر