امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹنگ کا طریقہ کار کیا ہے؟

سی این این کے ایگزیٹ پولز کے مطابق ڈیموکریٹس کا پلڑا بھاری ہے۔ صدارتی امیدوار جوبائیڈن کی جیت کا امکان 50 فیصد سے زائد جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی توقع 40 فیصد سے زائد ہے

امریکی صدارتی انتخاب  پردنیا بھر کی نظریں جمی ہیں۔ پاکستانی وقت کے مطابق شام 4 بجے نیویارک کے شہری صدارتی انتخاب کے لئے اپنا ووٹ ڈالیں گے۔

 امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے ایگزیٹ پولز کے مطابق ڈیموکریٹک جماعت کا پلڑا بھاری ہے۔ صدارتی امیدوار جوبائیڈن کی جیت کا امکان 50 فیصد سے زائد جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی توقع 40 فیصد سے زائد ہے۔

اسی طرح امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بھی بائیڈن ٹرمپ سے آگے ہیں۔

آج امریکی صدارتی انتخاب کے لئے پولنگ اسٹیشنز میں زیادہ لوگوں کی موجودگی کے باعث کورونا وائرس کے پھیلاو کا خدشہ ہے جس کے پیش نظرامریکی شہریوں کو قبل از وقت ووٹنگ یا ارلی ووٹنگ کی سہولت دی گئی۔

امریکی اخبار ‘یو ایس اے ٹوڈے’ نے امریکی الیکشن پروجیک کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اب تک 9 کروڑ کے قریب امریکی شہری ارلی ووٹنگ کے تحت اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔

ووٹ ڈالنے کے اہل افراد نے ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ بھیجا

پینسلوینا میں ایسے بیلٹس جو ووٹر کی شناخت کو چھپانے میں ناکام لفافوں میں بھیجے گئے انھیں ووٹنگ میں شامل نہیں کیا گیا۔

امریکا کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر ووٹروں کو کئی کئی گھنٹوں تک سفر کر کے پولنگ سٹیشن پہنچنا پڑرہا ہے۔

امریکا میں ووٹروں کے پاس شناختی دستاویز ہونا بھی ضروری ہے۔ اگرچہ کچھ ریاستوں میں ووٹر اقرار نامہ بھی دے سکتے ہیں مگر وسکانسن، ٹیکساس، انڈیانا، ٹینسی، میزوری اور جارجیا میں یہ سہولت میسر نہیں۔

یہاں پر یہ واضح کرنا بھی اہم ہے کہ امریکا وہ واحد ملک نہیں جہاں ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی دستاویز کی ضرورت ہو۔ برطانیہ میں بھی اس سلسلے میں پائلیٹ پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔

امریکا میں مقامی کاؤنٹی انتخاب کا انتظام کرتی ہے۔ ہر کاؤنٹی اور ریاست کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہر مرتبہ ووٹر فہرستیں ہٹا دیتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر ووٹر کو ہر مرتبہ اپنا نام ووٹر لسٹ میں درج کرانا پڑتا گا۔

امریکا کی زیادہ تر ریاستیں سنگین جرائم والے مجرموں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیتیں۔ کچھ ریاستوں میں سزا مکمل ہونے پر خود بہ خود ووٹ کا حق بحال ہو جاتا ہے جبکہ کچھ میں جب تک پرول یا تمام جرمانے ادا نہ کر دیے جائیں، ایسا نہیں ہوتا۔

اب بات ہوجائے امریکا میں ووٹنگ کے طریقہ کار کی۔ امریکا کی مختلف ریاستوں میں تین طرح  کی ووٹنگ ہوتی ہے۔

آپٹیکل اسکین پیپر بیلیٹ سسٹم

 یہ ایک عام طریقہ کارہےجس میں ووٹرز کاغذی بیلٹ پر ووٹ کا اندراج کرتے ہیں جسے پولنگ اسٹیشن یا مرکزی مقام پراسکین کیا جاتا ہے۔

براہِ رست ریکارڈنگ الیکٹرانک سسٹم

یہ طریقہ کار ڈی آر ای کہلاتا ہے۔ اس طریقہ کار میں کمپیوٹرز میں ٹچ اسکرین، ڈائل اور مکینیکل بٹنز کے ذریعے ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ کمپیوٹر پرنٹرز کی سہولت سے بھی آراستہ ہوتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ووٹ کو کاغذی شکل میں ڈھال سکتے ہیں۔

بیلیٹ مارکنگ ڈیوائسز سسٹم

یہ نظام بی ایم ڈی کہلاتا ہے۔ یہ جدید ترین طریقہ ہے جس میں بیلٹ پیپر کی الیکٹرانک نمائش کی جاتی ہے۔ اِس میں اختیارات اور مقابلے کے لیے انتخاب کا طریقہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اِس طریقہ کار میں بیلٹ پیپر کو انسانی آنکھ کے لیے الیکٹرانک نمائش کے لئے آسان ترین رکھا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار زیادہ تر معزور یا خصوصی افراد کی ووٹنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اگلا امریکی صدر کون بننے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن امریکی اخبار ‘یو ایس اے ٹوڈے’ کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کی پیشگوئی ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں اس صدی کا سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ  دیکھا جاسکے گا۔

متعلقہ تحاریر