افغان ہائی وے پر پولیس بھی طالبان ٹول کلیکٹرز سے خوف ذدہ ہیں

تزویراتی لحاظ سے کابل سے ہرات کے درمیان قائم ہائی وے خاصی اہمیت کی حامل ہے اور یہ ملک کے بیشتر حصے پر محیط ہے۔ طالبان اس سے 1 لاکھ 55 ہزار سے لے کر 1 لاکھ 95 ہزار روزانہ کماتے ہیں۔

جہاں امریکہ امن مزاکرات سے پیچھے ہٹا وہیں طالبان نے افغان ہائی وے پر قبضہ کر لیا۔ غیر سرکاری ٹیکسوں میں لاکھوں کا اضافہ کردیا ہے اور مذاکرات کی میز پر خود کو مضبوط کر رہے ہیں۔

جنوبی افغانستان میں پہاڑی چوٹی پر واقع پولیس چوکی سے گزرتے وقت ہر ٹرک ڈرائیور کو 5000 افغانی روپے جو کہ امریکی 65 ڈالرز بنتے ہیں ادا کرنے پڑتے ہیں۔

پولیس چوکی پر موجود افسر رسی کی مدد سے ایک ڈبہ ڈالتا ہے جو قیمت وصول ہونے پر واپس لے لیتا ہے۔

امریکہ نے فروری میں طالبان کے ساتھ فوجی دستوں کے انخلاء کے معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے بعد عسکریت پسندوں نے ہائی ویز پر نئی چوکیاں قائم کر لیں۔

سڑکوں کے طویل حصے پر قابو پا لیا اور ہائی وے سے گزرنے والے ٹرک ڈرائیور اور مسافروں سے ایک ہی ماہ میں لاکھوں ڈالرز کا بھتہ وصول کر رہے ہیں۔

ٹرک اور بس ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ سرکاری اہلکار خود تو اپنے مورچوں میں موجود ہوتے ہیں جبکہ کئی سڑکیں بھی جنگجو طالبان  کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ یہ عسکریت پسند فوجی اور سرکاری ملازمین کی گاڑیاں تلاش کر کے انہیں موقعے پر ہی ہلاک کر دیتے ہیں۔

یہ ہائی وے سے منافع جمع کرنے والا گروہ طالبان کو جنگ میں مالی معاونت فراہم کرنے کے ساتھ ہائی وے کا محاصرہ کرنے والے سرکاری افواج پر حملے کے لیے بھی اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے۔

خلیجی ملک قطر کے شہر دوحہ میں رکنے والے امن مزاکرات سے اُن کی مستحکم ہوئی ہے۔

افغانستان میں طالبان کا ہائی ویز پر قبضہ جنگ کی فوجی قوت کو تبدیل کر رہا ہے اور حکومت کے لیے فوجی قلعے اور چوکیوں کی بحالی میں مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

ٹرک ڈرائیور اور مقامی حکومتی عہدے داروں کا کہنا کہ عسکریت پسندوں نے پہلے کے مقابلے میں اب ہائی وے کے زیادہ حصہ پر قبضہ کر لیا ہے۔

تاہم امریکہ اور نیٹو نے ایک دہائی میں پہلی بار افواج کا انخلاء بھی شروع کردیا ہے۔

PC: The New York Times

حکومت افغان شہریوں کو بڑھتی ہوئی بھتہ خوری سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ طالبان نے پولیس کے ذریعے ڈرائیوروں پر طویل عرصے سے عائد کیے جانے والے اس رشوت کے نظام کو ختم کر دیا تھا۔

ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند مہر لگی ہوئی رسیدیں بھی ٹیکس کی ادائیگی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

افغانستان کے صوبہ ہرات میں ایوان صنعت و تجارت کے نائب سربراہ احمد سید عظیمیاں کا کہنا تھا کہ طالبان کا اصول ہے کہ ایک بار اگر ٹیکس ادا کر دیا تو پورے ملک میں اس کی رسید قابل قبول ہوگی۔ جبکہ پولیس جو بھتہ وصول کرتی ہے اُس کی کوئی رسید جاری نہیں کرتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تزویراتی لحاظ سے کابل سے ہرات کے درمیان قائم ہائی وے خاصی اہمیت کی حامل ہے اور یہ ملک کے بیشتر حصے پر محیط ہے۔ طالبان اس سے 1 لاکھ 55 ہزار سے لے کر 1 لاکھ 95 ہزار روزانہ کماتے ہیں۔

چونکہ فروری میں ہونے والے معاہدے نے امریکی فوج کو نظر انداز کیا اب طالبان ہائی وے پر ہونے والے امریکی فضائی حملوں کی پرواہ نہیں کرتے۔

جبکہ امریکی کمانڈروں کا کہنا تھا کہ وہ صرف نازک صورتحال میں سرکاری فوج کو فضائی مدد فراہم کرتے ہیں جیسے کہ طالبان جنگجوؤں پر صوبائی دارالحکومت کے محاصرے کے دوران امریکی طیاروں نے حملے کیے تھے۔

شمالی افغانستان کے صوبہ بغلان میں عسکریت پسندوں نے ایک چوکی بنائی ہے جہاں  وسطی ایشیائی ممالک سے درآمد ہونے والے سامان پر 400 سے 600 ڈالرز کسٹم فیس فی ٹرک وصول کی جاتی ہے۔ جبکہ ٹرک پہلے ہی سرحد پر واقع سرکاری کسٹم آفس پر ڈیوٹی ادا کر چکے ہوتے ہیں۔

بلخ ایوانِ صنعت و تجارت کے چیئرمین ناصر احمد قاسمی کا کہنا ہے کہ طالبان اس طرح کی وصولیوں سے ایک دن میں دو لاکھ ڈالرز کما سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دُگنا ٹیکس لگانے سے گیس، تیل، تعمیراتی مواد، آٹے اور پیداوار سمیت تجارتی اور صارفین کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔

تعمیراتی کمپنی کے مالک مسٹر ضیائی نے کہا کہ پہلے طالبان کسٹم جمع کرنے کے لیے سامنے نہیں آئے تھے کیونکہ انہیں سکیورٹی فورسز کا خوف تھا لیکن اب وہ وصولی کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

PC: The New York Times

کئی ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ طالبان کے زیراثر ہائی ویز جرائم سے آزاد ہیں کیونکہ یہ عسکریت پسند ڈاکوؤں کو اپنے علاقے میں کام نہیں کرنے دیتے ہیں۔

چور اکثر حکومت کے زیرانتظام علاقوں میں ڈرائیوروں اور مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں اسی وجہ سے پولیس اور فوجی اپنی چوکیایوں سے باہر آنے میں خوفزدہ ہوتے ہیں۔

کابل اور ہرات کے درمیان گذشتہ 8 سال سے بس چلانے والے ڈرائیور محمد شاہد نے بتایا کہ حکومت کے زیراثر شاہراہ کے ہر حصے میں ڈ کیتیاں ہورہی ہیں اور طالبان کے علاقوں میں ڈکیتیاں نہیں ہورہیں۔

کابل ہرات شاہراہ پر فیول ٹینکر کے ڈرائیورسمیر خان نے بتایا کہ پولیس نے طالبان علاقوں کے قریب رشوت لینے کی کوشش کی تو عسکریت پسندوں نے بھی مداخلت کی تھی۔ حال ہی میں انہوں نے دیکھا کہ طالبان جنگجوؤں نے دو پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا جنہوں نے ایک ٹرک ڈرائیور سے رشوت مانگی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ طالبان نے ایک پولیس افسر کو قتل کردیا جبکہ دوسرا فرار ہوگیا تھا۔

شمال مغربی افغانستان کے صوبوں ہرات اور غور کے درمیان 4 سال تک گاڑی چلانے والے ڈرائیور عامر محمد کا کہنا ہے کہ سڑک کا راستہ کبھی خراب نہیں تھا۔ راستے میں جگہ جگہ طالبان، ڈکیت اور مسلح افراد موجود ہیں۔ ”یہ لوگ ہمیں لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

ڈرائیور نے کہا کہ طالبان نے کئی سالوں سے عارضی طور پر راستے بند رکھے تھے تاکہ حکومتی یا امریکی افواج کے حملے کی صورت میں فرار ہوسکیں۔ چیک پوائنٹس سے کارگو ٹرکس، فیول ٹینکرز، منی بسز اور ٹیکسیوں سے لاکھوں ڈالرز اکٹھے کیے جاچکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پورے ہائی وے پر فوج کی صرف ایک چوکی ہے۔ پہلے کئی چوکیاں ہوا کرتی تھیں جن پر اب طالبان کا قبضہ ہے۔

PC: The New York Times

مشرقی افغانستان کے صوبہ لوگر کے رہائشی خان ولی نے کہا کہ اس سے قبل طالبان ہفتے میں صرف ایک بار سڑک بلاک کیا کرتے تھے لیکن اب روزانہ کی بنیادوں پر کی جارہی ہیں۔

ان کے پاس چیک پوائنٹس، تلاشی لینے والی گاڑیاں اور مسافر موجود ہیں۔ اس صورتحال نے کچھ سرکاری چوکیوں کو خطرناک پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ سڑک کی لمبائی کے ساتھ ساتھ خطرے میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

ایک بس ڈرائیور محمد عیسیٰ کے مطابق صوبہ زابل میں پولیس کی ایک چوکی ڈرائیورز کو روکتی ہے اور ان سے چوکی پر سازوسامان لانے کو کہتی ہے کیونکہ انہیں طالبان کا خوف لاحق ہے۔

ایک ٹیکسی ڈرائیور افسر خان نے بتایا کہ مشرقی افغانستان میں صوبہ پکتیا میں سڑک کا ایک طویل حصہ برسوں سے محفوظ سمجھا جاتا تھا۔

اب طالبان نے وہاں ایک چوکی قائم کردی ہے۔ لہٰذا عسکریت پسندوں اور سرکاری فوج کے درمیان تقریباً ہر روز جھڑپیں اور حملے ہوتے رہتے ہیں۔

مشرقی افغانستان کے صوبہ خوست کے رہائشی اجمل نے کہا کہ حال ہی میں کابل اور شہر خوست کے درمیان شاہراہ پر طالبان نے سرکاری ملازمین کو اغوا کرکے قتل کردیا تھا۔

ماضی میں ہم نے بغیر کسی خوف کے اس سڑک کا سفر کیا۔ لیکن اب ہم نہیں جانتے کہ ہم کابل پہنچیں گے یا طالبان ہمیں سڑک کے کنارے مار ڈالیں گے۔

متعلقہ تحاریر